کولکاتا: سی پی آئی ایم کی دو روزہ ریاستی کمیٹی کی میٹنگ میں گزشتہ دنوں منعقد ہوا۔ پنچایت انتخابات اور دھوپ گوری کے انتخابات کے نتائج میٹنگ کے ایجنڈے میں شامل تھے۔میٹنگ میں پارٹی کی تنظیمی صورت حال پر بھی بات ہوئی ۔ذرائع کے مطابق منگل کو ریاستی کمیٹی کی میٹنگ کے درمیان شمالی بنگال، جنوبی بنگال اور دیگر علاقوں کے لیڈروں نے کہا کہ ’’کانگریس اب بھی ریاست کے کچھ مخصوص علاقے میں مضبوط ہے ۔مگر ایسا کوئی علاقہ نہیں ہے جہاں پارٹی کی پوزیشن بہت ہی مضبوط ہے۔
گرچہ بائیں بازو کے پاس کانگریس سے زیادہ ووٹ ہیں، لیکن وہ کسی خاص علاقے میں مرکوز نہیں ہے۔ جنوبی بنگال میں سی پی آئی ایم پوزیشن زیادہ مضبوط ہے۔ 2021 میں سی پی آئی ایم کے ووٹوں میں اضافہ ہوا ہے،مگرسی پی آئی ایم کا ووٹ کسی خاص علاقے میں مرکوز نہیں ہے ۔ سی پی ایم لیڈروں کا کہنا ہے کہ ووٹوں کا یہ پھیلاؤ سیاسی طور پر مثبت ہےمگر سیٹیں جیتنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ کانگریس کا زیادہ تر ووٹ مالدہ، مرشد آباد اور شمالی دیناج پور میں مرکوز ہے جو انہیں آئندہ لوک سبھا انتخابات میں بھی فائدہ دے سکتا ہے۔ سی پی آئی ایم کی ریاستی انتظامی کمیٹی اور مرکزی کمیٹی کے ممبر شیامک لہڑی نے کہا کہ ہمارے ووٹ ریاست بھر میں پھیلے ہوئے ہیں ۔’ہمارے پاس احتجاج کرنے کے علاوہ عوام کا اعتماد دوبارہ حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے ۔پنچایت انتخابات میںترنمول کانگریس کے دہشت کے باوجود ریاست کے کئی بلاکس میں ہمارا ووٹ 30 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔
حال ہی میں دھو پ گوڑی اسمبلی ضمنی انتخاب میں سی پی ایم کی ضمانت ضبط ہوگئی ہے۔ سی پی ایم نے کانگریس کی حمایت کے باوجود بہتر پوزیشن میں نہیں پہنچ سکی ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ شمالی بنگال میں سی پی ایم جمود کا شکار ہے لیکن جنوبی بنگال میں اس کے ووٹوں کی شرح نمو نسبتاً اچھی ہے۔ شانتی پور، بالی گنج کے اسمبلی ضمنی انتخاب میں سی پی ایم کی پوزیش مستحکم تھی۔ سی پی ایم کی حمایت سے ساگردیگھی میں کانگریس امیدوار نے جیت حاصل کی تھی۔
سی پی ایم لیڈروں کا کہنا ہے کہ لوک سبھا انتخابات میں سیٹیں حاصل کرنے پر توجہ مبذول کرنے ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے کانگریس کے ساتھ بات شروع کردی ہے ۔ مرشد آباد اور رائے گنج پر توجہ مرکوز کی جارہی ہے۔2014 کے لوک سبھا انتخابات میں سی پی ایم کے بنگال سے دو ایم پی تھے۔ رائے گنج سے محمد سلیم اور مرشد آباد سے بدرالدجی خان نے کامیابی حاصل کی تھی۔ لیکن 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں، سی پی پی ایم نے رائے گنج اور مرشد آباد کو آخری لمحات میں کانگریس کے ساتھ اتحاد نہیں ہونے کی وجہ سے ان دونوں سیٹ پر کانگریس اور سی پی آئی ایم دونوں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
دوسری طرف کانگریس کے تئیں نرم رویہ ظاہر کرتے ہوئے سی پی آئی ایم نے دو سیٹوں پر سی پی ایم نے امیدوار کھڑا نہیں کیا ہے۔ بہرام پور اور مالدہ جنوبی سیٹوں پر کانگریس نے کامیابی حاصل کی ہے۔ سی پی ایم لیڈروں کو خدشہ ہے کہ لوک سبھا انتخابات کے قریب آتے ہی ترنمول کانگریس اور بی جے پی پولرائزیشن کا سہارا لے گی۔
یہ بھی پڑھیں: Kumal Ghosh Defamation Case ہتک عزت مقدمے میں بائیں محاذ کے چیر مین بمان بوس اور محمد سلیم عدالت میں حاضر
سی پی ایم کے لیڈروں کا ایک بڑا طبقہ چاہتا ہے کہ اگر کچھ نہیں تو کم از کم مرشد آباد سیٹ پر کانگریس کے ساتھ اتحاد ہونا چاہیے۔ سیاسی حلقوں میں کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ مرشدآباد اور مالدہ کی اقلیتوں کے سیاسی ڈھانچے میں دوسرے اضلاع کی اقلیتوں سے فرق ہے۔ تاہم، سی پی ایم کے بہت سے لیڈر چند حلقوں کی نشاندہی کرنا چاہتے ہیں اور لوک سبھا انتخابات لڑنا چاہتے ہیں۔ کوئی بڑی توقع نہیں ہے خلا کو پُر کرنا سی پی آئی ایم کا پہلا ہدف ہے۔