دونوں ٹیچروں پر الزام ہے کہ انہوں نے پری پرائمری جماعت میں ایسی کتاب شامل کی ہے جس کے ٹکسٹ بک میں انگریزی کے الفافیٹ (حروف تہجی)کی شناخت میں ”یو“ (U)فار ’اگلی‘(UGLY)(بدصورت) بتاتے ہوئے ایک سیاہ فام شخص کی تصویر دکھائی گئی ہے۔
مغربی بنگال کے وزیر تعلیم پارتھو چٹرجی نے کہا کہ یہ کتاب ریاستی حکومت کی تجویز کردہ نصاب کا حصہ نہیں ہے۔اسکول انتظامیہ نے اپنے طور پر یہ کتاب اپنے نصاب میں شامل کررکھا ہے۔
انہوں نے کہاکہ ہم اس طرح کی توہین آمیز نسل پرستی پر مبنی کتابیں جس سے طلباکے ذہن و دماغ متاثر ہوں کو برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔اسکول انتظامیہ اور ٹیچروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔اس وقت لاک ڈاؤن کی وجہ سے اسکول بند ہیں۔
”بانی پرکاشن“نامی ایک پرائیوٹ پبلشر کمپنی نے اس کتاب کو شایع کیا ہے۔اسکول انتظامیہ کو ہدایت دی گئی ہے وہ فوری طور پر اس کتاب کو نصاب سے ہٹادیں۔
چٹرجی نے کہا کہ حکومت کے تمام امداد یافتہ اسکولوں سے کہا گیا ہے کہ اگر مستقبل میں کوئی اسکول حکومت کے ایڈوائزری یا پھر بک لسٹ کی خلاف ورزی کی تو ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
دراصل اسکول کے ایک طالب علم کے والد نے سب سے پہلے اس کو نوٹس لیا،اس میں دیگر والدین کو بھی مطلع کیا اور بعد میں محکمہ تعلیم سے شکایت کی گی ہے۔
ایک والد نے کہا کہ میں نے اس مسئلے کو اسکول کے ٹیچرانچارج سے شیئر کیا تو وہ حیران رہ گئے ہیں اور یقین دہانی کرائی گئی کہ فوری طور پر اس کتاب کو واپس لیا جائے گا۔
گارجین نے کہا کہ یہ تصویر نسل پرستی کو صحیح ٹھہرانے کے ساتھ پولرائزیشن کو فروغ دینے والا ہے۔میں نہیں چاہتا ہوں کہ میری بیٹی اس طرح کی تعلیم حاصل کرے۔
خیال رہے کہ یہ اس وقت منظر عام پر آیا ہے جب امریکہ کے پولس کے ہاتھوں سیاہ فام جارج فلائیڈ کے قتل کے خلاف پوری دنیا میں احتجاج ہورہا ہے۔ہندوستان میں بھی نسل پرستی کے خلاف آواز بھی اٹھی ہے۔