اس موضوع پر کلیدی خطبہ ڈاکٹر فاضل حسن ہاشمی نے پیش کرتے ہوئے کشمیری پنڈتوں کے اردو زبان و ادب کی خدمات پر سیر حاصل بحث کی۔
کلکتہ گرلزکالج شعبہ اردو اور قومی کونسل برائے فروغ زبان اردو کے اشتراک سے بعنوان "کشمیری پنڈتوں کی اردو خدمات "پر دو روزہ سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ اس میں اس موضوع پر پہلے دن چار مقالے پڑھے گئے جبکہ لکھنؤ یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر فاضل حسن ہاشمی نے اظہار تشکر پیش کیا ۔
کلکتہ گرلز کالج کے صدر شعبہ اردو ڈاکٹر نعیم انیس نے سیمینار اور اس موضوع کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا پہلی بار شہر نشاط میں اس موضوع پر سیمینار ہو رہا ہے اردو زبان میں کشمیری پنڈتوں کے کے خدمات انمٹ نقوش چھوڑے ہیں ۔
وہ اردو کی اثاث ہیں۔ ڈاکٹر فاضل حسن ہاشمی نے اپنے کلیدی خطبے میں کہا کہ اردو اور فارسی ادب کی چمن کی آبیاری میں جن لوگوں نے اپنے خون جگر کا نذرانہ پیش کیا ہے ۔ان میں کشمیری پنڈتوں کا نام پیش پیش کشمیر کی وادیوں میں کشمیری پنڈتوں کے سکونت اختیار اور ان کے بعد بارش کے سلسلے میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر فاضل حسن ہاشمی نے سامعین کے معلومات میں اضافہ کیا۔
کلکتہ گرلس کالج کے شعبہ اردو روح رواں ڈاکٹر نعیم انیس لی اس سیمینار کے انعقاد پر مبارکباد پیش کی انہوں نے کہا کہ اردو صرف ایک زبان نہیں ہے بلکہ ایک تہذیب ہے آج کی تہذیبی تبدیلی کے پش منظر میں ہمیں ان ادیبوں اور شعراء کو از سر نو جاننے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر فاضل حسن ہاشمی نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 15 ویں صدی میں اردو کے یہ عاشق صادق شمالی ہند میں بس گئے ان کی جتنی قدر کی جائے کم خصوصی طور پر اردو اور فارسی زبان کے خدمات کے حوالے سے بہار گلشن کشمیر میں 185 کشمیری پنڈتوں کے حالات زندگی اور ان کے کلام کا ذکر ہے جو 1931 میں پنڈت جگموہن ناتھ رینا نے شائع کیا تھا جب ہم کشمیری پنڈتوں کی بات کرتے ہیں ڈاکٹر علامہ اقبال جو عقیدے کے اعتبار سے مسلمان تھے لیکن ان کے اجداد کشمیری پنڈت تھے اور پنڈت دیا شنکر نسیم اور پنڈت رتن ناتھ سرشار کا نام اردو زبان و ادب سے نکال دیا جائے تو اردو میں کیا رہ جائے گا ہمیں ان کو نئے طور پر جاننے کی ضرورت ہے۔