کولکاتا: ملک میں حجاب پر جاری تنازع پر کولکاتا میں بین مذاہب کے رہنماؤں نے افسوس ناک قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی ہے۔ اڈپی سے شروع ہونے والے حجاب کے خلاف مہم کے اثرات اب ملک کے دوسرے حصوں میں بھی نظر آنے لگے ہیں Hijab Row Spread all Over India۔
ریاست مغربی بنگال میں بھی اس طرح کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ بنگال کے مرشدآباد اور جنوبی 24 پرگنہ میں بھی با حجاب طلباء کو اسکول میں داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا جس پر کافی احتجاج بھی ہوا ہے۔
حجاب کے خلاف اس نفرت انگیز مہم پر کولکاتا میں مختلف مذاہب کے رہنماؤں نے اپنے رد عمل کا اظہار کیا ہے اور حجاب پر پابندی کو بنیادی حقوق کے خلاف قرار دیا۔ Multi Religious Leaders Condemned Hijab Row
دھارمک جن مورچہ میں شامل بارگھو اچاریہ صدر سنت پروہت ایسوسی ایشن مغربی بنگال، مولانا عبد الرفیق، صدر مغربی بنگال جماعت اسلامی، ترسیم سنگ گردوارا سنت کٹیا، فادر سنجیب شیام نگر چرچ، شاداب معصوم کنوینر دھارمک جن مورچہ مغربی بنگال کی جانب سے حجاب پر پابندی کو ملک میں ہندو مسلمانوں کے درمیان تفریق پیدا کرنے کی ایک منظم کوشش قرار دی گئی۔
دوسری جانب بنگال میں بھی اس طرح کے واقعات پیش آنے ہر انہوں نے افسوس کا اظہار کیا اور ریاستی حکومت سے اس پر کارروائی کرنے کی اپیل کی ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے ترسیم سنگھ نے کہاکہ یہ تنازع ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب ملک کی کئی ریاستوں میں انتخابات ہو رہے ہیں اور اس کا مقصد بھی سیاسی مفاد ہے۔ ہر مذہب میں کچھ رسم و رواج ہے کچھ طریقے ہیں جس پر ہم برسوں سے عمل کر رہے ہیں، لیکن اچانک اس پر جو واویلا مچایا جا رہا ہے اس کا مقصد کیا ہے یہ سب کو پتا ہے۔ ہم اس طرح کی مذموم کوششوں کی مذمت کرتے ہیں۔
جماعت اسلامی حلقہ مغربی بنگال کے صدر مولانا عبد الرفیق نے کہاکہ ملک کے دستور نے سب کو اپنے پسند کے مذہب کی پیروی کرنے کی اجازت دی ہے۔ لیکن آج جس طرح سے حجاب پر حملے کیے جا رہے ہیں یہ افسوس ناک ہے۔ بنگال میں بھی اس طرح کے واقعات رونما ہوئے ہیں جو تشویشناک ہے۔ ہر کسی کو اپنے پسند کے ملبوسات پہنے اور اپنے مذہب پر عمل کرنے کی اجازت ہونی چاہیے اور بنگال کی حکومت کو اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
فادر سنجیب نے ای ٹی بھارت کو بتایا کہ حجاب کے بہانے ہندو مسلم فسادات کرانے کے کوشش ہے۔ لیکن یہ سب سمجھ رہے ہیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ دوسری جانب بنگال میں بھی اس طرح کے معاملے سامنے آئے ہیں اس ہر ہمارے مذہبی رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ اس پر قانونی طور پر کام کریں ایسے واقعات کے خلاف پولیس میں شکایت درج کرائیں کیونکہ کوئی بھی ہمیں اپنے پسند کے مذہب کی پیروی کرنے سے نہیں روک سکتا ہے۔
مزید پڑھیں: