ETV Bharat / state

Three Day Seminar on Urdu Journalism: اردو صحافت کے دو سو سال مکمل ہونے پر کولکتہ میں تین روزہ سیمینار کا انعقاد - اردو صحافت کا مستقبل

مغربی بنگال اردو اکاڈمی کی جانب سے اردو صحافت کے دو سو سال مکمل ہونے کے موقع پر تین روزہ سیمینار منعقد کیا گیا۔ اس دوران 15 صحافیوں کو ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ three day seminar in Kolkata on completion of 200 years of Urdu journalism

اردو صحافت کے دو سو سال مکمل ہونے پر کولکتہ میں تین روزہ سیمینار کا انعقاد
اردو صحافت کے دو سو سال مکمل ہونے پر کولکتہ میں تین روزہ سیمینار کا انعقاد
author img

By

Published : May 28, 2022, 12:49 PM IST

کولکتہ: اردو صحافت کے دو سو سال مکمل ہونے کے موقع پر مغربی بنگال اردو اکاڈمی کی جانب سے اردو کے پہلے اخبار جام جہاں نما کے نام پر تین روزہ جشن منایا گیا۔ وہیں اردو صحافت کے دو سو سال مکمل ہونے کے موقع پر تین روزہ اردو صحافت پر سیمینار بھی منعقد کیا گیا اور اس دوران اردو صحافت ماضی حال اور مستقبل پر باتیں کی گئی اس کے ساتھ اردو صحافت کو لاحق نئے چیلینجوں پر بھی غور و فکر کیا گیا۔ ملک کے معروف صحافیوں نے اردو صحافت پر مقالے پیش کئے۔ Three day seminar by West Bengal Urdu Academy

اردو صحافت کے مستقبل کے حوالے سے موجود تشویش پر اسکالرس نے کہا کہ' اردو صحافت ابھی مزید دو سو سال باقی رہے گی۔ لیکن دو سو سال مکمل ہو چکے ہیں اب ہمیں اردو صحافت کے آئندہ 50 برسوں کے امکانات پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔' اردو صحافت کا آغاز اردو کے پہلے ہفتہ وار اخبار جام جہاں نما کے ساتھ ہوئی تھی۔ سنہ 1822 میں کلکتہ کے امرتلہ لین میں اردو صحافت کی داغ بیل پڑی تھی۔ اردو صحافت کے دو سو سال پورے ہونے پر ریاست مغربی بنگال اردو اکاڈمی کی جانب سے بڑے پیمانے پر جشن کا اہتمام کیا گیا۔ تین روزہ جشن کو جش جام جہاں نما کا نام دیا گیا اس دوران تین روزہ اردو صحافت کے مختلف موضوعات پر سیمینار کے دوران مقالے پیش کئے گئے۔ The future of Urdu journalism

اردو صحافت کے دو سو سال مکمل ہونے پر کولکتہ میں تین روزہ سیمینار کا انعقاد

اس دوران 15 صحافیوں کو ایوارڈ سے بھی نوازا گیا اور ایک قومی مشاعرے کا بھی انعقاد کیا گیا۔ تین روزہ سیمینار کے دوران پورے ملک سے آئے 28 مقالہ نگاروں نے اپنے مقالے پیش کئے۔ اس مقالہ نگاروں میں اردو کے علاوہ انگریزی، بنگلہ اور ہندی کے بھی مقالہ نگار شامل تھے۔ سیمینار کے افتتاح اجلاس میں پروفیسر اخترالواسع نے کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے اردو صحافت کے نشیب و فراز کا ذکر کیا اس کے علاوہ بنگال کی اردو صحافت پر بھی روشنی ڈالی۔

سیمینار کے اجلاس کی صدارت پروفیسر اخترالواسع نے کی جس میں 7 مقالہ نگاروں نے اپنے مقالے پیش کئے۔ جن میں پروفیسر احتشام احمد خان (حیدرآباد )، محمد شکیل اختر(دہلی)، ایم آئی ظہیر(راجستھان) محمد امان اللہ(کولکاتا)، اشہر ہاشمی، شکیل خان (کولکاتا)۔ دوسرے اجلاس میں جس میں زیادہ مقالہ نگاروں کا تعلق دوسری زبانوں سے تھا کی صدارت ترنمول کانگریس کے ایم پی راجیہ سبھا جواہر سرکار نے کی۔ اس اجلاس میں 8 مقالے پیش کئے گئے۔ جن میں ویویک گپتا، ایم ایل اے ترنمول کانگریس، چئیرمین مغربی ہندی اکاڈمی، احمد حسن عمران بنگلہ اخبار قلم کے ایڈیٹر،احمد ابراہیم علوی (لکھنؤ )، جینتو گھوشال بنگلہ صحافی، ہرادھن بھٹا چاریہ (کولکاتا) غزالہ یاسمین عالیہ یونیورسٹی انگریزی صحافی نے اردو صحافت پر روشنی ڈالی۔

تیسرے اجلاس کی صدارت ممبئی سے آئے معروف صحافی شاہد لطیف نے کی اس اجلاس میں 7مقالے پیش کیے گئے۔ مقالہ نگاروں میں جاوید دانش معروف داستان گو فی الحال کینیڈا میں مقیم ہیں لیکن ان کا تعلق کلکتہ سے ہی ہے۔ شہیل انجم (دہلی) عامر علی خان(حیدرآباد)، سبوجیت باگچی انگریزی (کولکاتا )، قربان علی بی بی سی اردو(دہلی)، سرفراز آرزو (ممبئی)، جاوید انور (بنارس)، شامل تھے۔ چوتھے اجلاس کی صدارت عارف آرزو نے کی اس اجلاس میں مقالہ پیش کرنے والوں پرویز حفیظ انگریزی صحافی (کولکاتا) معصوم مردآبادی(دہلی)، ریاض ملک (کشمیر)، عاصم عبدالسلام(دہلی)۔ اشرف فرید (پٹنہ) اور اسد مرزا (دہلی) شامل تھے۔

تین روزہ قومی سیمینار میں اردو صحافت کے ماضی مستقبل اور حال پر سیر حاصل بحث کی گئی۔ اس کے علاوہ اردو صحافت مستقبل اور نئے دور میں درپیش مسائل پر تفصیل سے گفتگو کی گئی۔ اس موقع پر ای ٹی وی بھارت نے ممبئی سے معروف صحافی شاہد لطیف سے خصوصی گفتگو کی۔ جس میں انہوں نے کہا کہ 'اردو صحافت کے دو سو برس پورے ہونے پر فخر کرنے کے بجائے اب ہمیں اردو صحافت کے آئندہ 25 یا 50 سال کے بارے میں سوچنا چاہیے کہ ہماری زبان میں صحافت کس طرح دے آنے والے چلینجیج کا مقابلہ کرے اور آنے والی نسل کس طرح سے اپنی طرف راغب کرے۔

ہمیں اخباروں میں نوجوان کے مسائل کو جگہ دینی چاہیے ہم دیکھتے ہیں کہ اخبارات میں صرف سیاست کی باتیں ہوتی ہیں۔ اردو اخبارات میں معیشت کی خبروں کو کہیں نہیں جگہ دی جاتی ہے۔ روزگار کی باتیں کیوں نہیں ہوتی تجارتی معاملات کیوں نہیں ہوتے دوسرے ممالک میں جو نئے نئے انکشافات ہو رہے ہیں ان پر کیوں بات نہیں ہوتی ہے اگر ہم ان چیزوں کو اپنے اخبار میں جگہ دیں گے تو ہمارا نوجوان کاری اس طرف آئے گا۔ نوجوانوں کو اگر آپ جوڑنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو آئندہ 25 اور 50 کیا اردو صحافت کا مستقبل آئندہ دو سو برسوں کے لیے مستقبل ہو جائے گا۔'

انہوں نے اردو صحافت کے مستقبل کے حوالے سے کہا کہ 'گذشتہ دو سو سال میں اردو صحافت سے اتنے مذاہب کے لوگ اردو صحافت سے جڑے رہے۔ ایک پیپر پڑھا گیا اردو کے غیر مسلم صحافی جس میں کم سے کم 200 غیر مسلم اردو کے صحافیوں کے نام سامنے آئے۔ اگر ہم دوسرے مذاہب کے لوگوں کو بتاتے رہے ہیں کہ ہمارے یہاں کیا ہو رہا ہے اگر ہم کہتے ہیں کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں ہے تو ہمیں سب کو بتانا پڑے گا کہ یہ سب کی زبان ہے۔ جس طرح سے ریختہ پر اردو ادب کی ساری چیزیں دستیاب ہیں اسی طرح ایک پورٹل ایسا بھی ہونا چاہئے جس پر اردو صحافت اور صحافیوں کے متعلق تمام معلومات ہو۔'

یہ بھی پڑھیں: West Bengal Urdu Academy Awards for Journalists: بنگال اردو اکاڈمی پر اردو صحافیوں کو نظر انداز کرنے کا الزام

بی بی سی کے صحافی قربان علی نے اردو صحافت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'اردو صحافت کے دو سو سال پورے ہوئے جن میں سوا سو سال آزادی کے لڑائی کے تھے انگریزوں سے آزادی مل بھی گئی لیکن گذشتہ 75 برسوں میں اس کو امتیاز کا شکار ہونا پڑا آزادی کے بعد جس طرح دوسری زبانوں کے پریس کی ترقی ہوئی اردو کی نہیں ہوئی۔ لیکن اب تقاضہ یہ ہے کہ بدلتے وقت کے ساتھ اردو میڈیا کو بدلنا ہوگا جدید ٹیکنالوجی سے خود کو آراستہ کرنا ہوگا۔آج کل ڈیجیٹل کا دور ہے تو خود اسی روپ میں بدلنا ہوگا اردو کا ایک بڑا بازار ہے دبئی سے لیکر ڈھاکہ تک اس پر پیشہ ورانہ طور پر کیا جائے تو اس کے کئی اپنے ٹی وی چینل ہو سکتے ہیں۔کئی اچھے بڑے اخبار ہو سکتے ہیں کئی رسالے ہو سکتے ہیں اور سوشل میڈیا کا جو پلیٹ فارم ہے اس پر بھی بہت چیزیں ہو سکتی ہیں۔اس کے لئے ایک بڑے پیمانے پر لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے جب تک لائحہ عمل تیار نہیں کیا جاتا ہے اردو صحافت کا مستقبل روشن نہیں ہو سکتا ہے۔'

کولکتہ: اردو صحافت کے دو سو سال مکمل ہونے کے موقع پر مغربی بنگال اردو اکاڈمی کی جانب سے اردو کے پہلے اخبار جام جہاں نما کے نام پر تین روزہ جشن منایا گیا۔ وہیں اردو صحافت کے دو سو سال مکمل ہونے کے موقع پر تین روزہ اردو صحافت پر سیمینار بھی منعقد کیا گیا اور اس دوران اردو صحافت ماضی حال اور مستقبل پر باتیں کی گئی اس کے ساتھ اردو صحافت کو لاحق نئے چیلینجوں پر بھی غور و فکر کیا گیا۔ ملک کے معروف صحافیوں نے اردو صحافت پر مقالے پیش کئے۔ Three day seminar by West Bengal Urdu Academy

اردو صحافت کے مستقبل کے حوالے سے موجود تشویش پر اسکالرس نے کہا کہ' اردو صحافت ابھی مزید دو سو سال باقی رہے گی۔ لیکن دو سو سال مکمل ہو چکے ہیں اب ہمیں اردو صحافت کے آئندہ 50 برسوں کے امکانات پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔' اردو صحافت کا آغاز اردو کے پہلے ہفتہ وار اخبار جام جہاں نما کے ساتھ ہوئی تھی۔ سنہ 1822 میں کلکتہ کے امرتلہ لین میں اردو صحافت کی داغ بیل پڑی تھی۔ اردو صحافت کے دو سو سال پورے ہونے پر ریاست مغربی بنگال اردو اکاڈمی کی جانب سے بڑے پیمانے پر جشن کا اہتمام کیا گیا۔ تین روزہ جشن کو جش جام جہاں نما کا نام دیا گیا اس دوران تین روزہ اردو صحافت کے مختلف موضوعات پر سیمینار کے دوران مقالے پیش کئے گئے۔ The future of Urdu journalism

اردو صحافت کے دو سو سال مکمل ہونے پر کولکتہ میں تین روزہ سیمینار کا انعقاد

اس دوران 15 صحافیوں کو ایوارڈ سے بھی نوازا گیا اور ایک قومی مشاعرے کا بھی انعقاد کیا گیا۔ تین روزہ سیمینار کے دوران پورے ملک سے آئے 28 مقالہ نگاروں نے اپنے مقالے پیش کئے۔ اس مقالہ نگاروں میں اردو کے علاوہ انگریزی، بنگلہ اور ہندی کے بھی مقالہ نگار شامل تھے۔ سیمینار کے افتتاح اجلاس میں پروفیسر اخترالواسع نے کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے اردو صحافت کے نشیب و فراز کا ذکر کیا اس کے علاوہ بنگال کی اردو صحافت پر بھی روشنی ڈالی۔

سیمینار کے اجلاس کی صدارت پروفیسر اخترالواسع نے کی جس میں 7 مقالہ نگاروں نے اپنے مقالے پیش کئے۔ جن میں پروفیسر احتشام احمد خان (حیدرآباد )، محمد شکیل اختر(دہلی)، ایم آئی ظہیر(راجستھان) محمد امان اللہ(کولکاتا)، اشہر ہاشمی، شکیل خان (کولکاتا)۔ دوسرے اجلاس میں جس میں زیادہ مقالہ نگاروں کا تعلق دوسری زبانوں سے تھا کی صدارت ترنمول کانگریس کے ایم پی راجیہ سبھا جواہر سرکار نے کی۔ اس اجلاس میں 8 مقالے پیش کئے گئے۔ جن میں ویویک گپتا، ایم ایل اے ترنمول کانگریس، چئیرمین مغربی ہندی اکاڈمی، احمد حسن عمران بنگلہ اخبار قلم کے ایڈیٹر،احمد ابراہیم علوی (لکھنؤ )، جینتو گھوشال بنگلہ صحافی، ہرادھن بھٹا چاریہ (کولکاتا) غزالہ یاسمین عالیہ یونیورسٹی انگریزی صحافی نے اردو صحافت پر روشنی ڈالی۔

تیسرے اجلاس کی صدارت ممبئی سے آئے معروف صحافی شاہد لطیف نے کی اس اجلاس میں 7مقالے پیش کیے گئے۔ مقالہ نگاروں میں جاوید دانش معروف داستان گو فی الحال کینیڈا میں مقیم ہیں لیکن ان کا تعلق کلکتہ سے ہی ہے۔ شہیل انجم (دہلی) عامر علی خان(حیدرآباد)، سبوجیت باگچی انگریزی (کولکاتا )، قربان علی بی بی سی اردو(دہلی)، سرفراز آرزو (ممبئی)، جاوید انور (بنارس)، شامل تھے۔ چوتھے اجلاس کی صدارت عارف آرزو نے کی اس اجلاس میں مقالہ پیش کرنے والوں پرویز حفیظ انگریزی صحافی (کولکاتا) معصوم مردآبادی(دہلی)، ریاض ملک (کشمیر)، عاصم عبدالسلام(دہلی)۔ اشرف فرید (پٹنہ) اور اسد مرزا (دہلی) شامل تھے۔

تین روزہ قومی سیمینار میں اردو صحافت کے ماضی مستقبل اور حال پر سیر حاصل بحث کی گئی۔ اس کے علاوہ اردو صحافت مستقبل اور نئے دور میں درپیش مسائل پر تفصیل سے گفتگو کی گئی۔ اس موقع پر ای ٹی وی بھارت نے ممبئی سے معروف صحافی شاہد لطیف سے خصوصی گفتگو کی۔ جس میں انہوں نے کہا کہ 'اردو صحافت کے دو سو برس پورے ہونے پر فخر کرنے کے بجائے اب ہمیں اردو صحافت کے آئندہ 25 یا 50 سال کے بارے میں سوچنا چاہیے کہ ہماری زبان میں صحافت کس طرح دے آنے والے چلینجیج کا مقابلہ کرے اور آنے والی نسل کس طرح سے اپنی طرف راغب کرے۔

ہمیں اخباروں میں نوجوان کے مسائل کو جگہ دینی چاہیے ہم دیکھتے ہیں کہ اخبارات میں صرف سیاست کی باتیں ہوتی ہیں۔ اردو اخبارات میں معیشت کی خبروں کو کہیں نہیں جگہ دی جاتی ہے۔ روزگار کی باتیں کیوں نہیں ہوتی تجارتی معاملات کیوں نہیں ہوتے دوسرے ممالک میں جو نئے نئے انکشافات ہو رہے ہیں ان پر کیوں بات نہیں ہوتی ہے اگر ہم ان چیزوں کو اپنے اخبار میں جگہ دیں گے تو ہمارا نوجوان کاری اس طرف آئے گا۔ نوجوانوں کو اگر آپ جوڑنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو آئندہ 25 اور 50 کیا اردو صحافت کا مستقبل آئندہ دو سو برسوں کے لیے مستقبل ہو جائے گا۔'

انہوں نے اردو صحافت کے مستقبل کے حوالے سے کہا کہ 'گذشتہ دو سو سال میں اردو صحافت سے اتنے مذاہب کے لوگ اردو صحافت سے جڑے رہے۔ ایک پیپر پڑھا گیا اردو کے غیر مسلم صحافی جس میں کم سے کم 200 غیر مسلم اردو کے صحافیوں کے نام سامنے آئے۔ اگر ہم دوسرے مذاہب کے لوگوں کو بتاتے رہے ہیں کہ ہمارے یہاں کیا ہو رہا ہے اگر ہم کہتے ہیں کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں ہے تو ہمیں سب کو بتانا پڑے گا کہ یہ سب کی زبان ہے۔ جس طرح سے ریختہ پر اردو ادب کی ساری چیزیں دستیاب ہیں اسی طرح ایک پورٹل ایسا بھی ہونا چاہئے جس پر اردو صحافت اور صحافیوں کے متعلق تمام معلومات ہو۔'

یہ بھی پڑھیں: West Bengal Urdu Academy Awards for Journalists: بنگال اردو اکاڈمی پر اردو صحافیوں کو نظر انداز کرنے کا الزام

بی بی سی کے صحافی قربان علی نے اردو صحافت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'اردو صحافت کے دو سو سال پورے ہوئے جن میں سوا سو سال آزادی کے لڑائی کے تھے انگریزوں سے آزادی مل بھی گئی لیکن گذشتہ 75 برسوں میں اس کو امتیاز کا شکار ہونا پڑا آزادی کے بعد جس طرح دوسری زبانوں کے پریس کی ترقی ہوئی اردو کی نہیں ہوئی۔ لیکن اب تقاضہ یہ ہے کہ بدلتے وقت کے ساتھ اردو میڈیا کو بدلنا ہوگا جدید ٹیکنالوجی سے خود کو آراستہ کرنا ہوگا۔آج کل ڈیجیٹل کا دور ہے تو خود اسی روپ میں بدلنا ہوگا اردو کا ایک بڑا بازار ہے دبئی سے لیکر ڈھاکہ تک اس پر پیشہ ورانہ طور پر کیا جائے تو اس کے کئی اپنے ٹی وی چینل ہو سکتے ہیں۔کئی اچھے بڑے اخبار ہو سکتے ہیں کئی رسالے ہو سکتے ہیں اور سوشل میڈیا کا جو پلیٹ فارم ہے اس پر بھی بہت چیزیں ہو سکتی ہیں۔اس کے لئے ایک بڑے پیمانے پر لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے جب تک لائحہ عمل تیار نہیں کیا جاتا ہے اردو صحافت کا مستقبل روشن نہیں ہو سکتا ہے۔'

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.