شبھاشاچی دتہ نے اپنے استعفیٰ میں کہا ہے کہ وہ اس عہدہ پر رہ کر بھی بدھان نگر کے عوام کیلئے کام نہیں کرپارہے تھے اور ریاستی حکومت کی جانب سے ریلیف نہیں مل رہا تھا۔
کلکتہ ہائی کورٹ نے کل انہیں عارضی ریلیف فراہم کیا تھا۔عدم اعتماد کی تحریک کے نوٹس کو کلکتہ ہائی کورٹ نے تکنیکی بنیاد پرخارج کردیا تھا اور اس کی وجہ سے ان کے خلاف پیش عدم اعتماد کی تحریک رد ہوگئی تھی۔شبھاشاچی دتہ نے عدم اعتماد کی تحریک کے خلاف عرضی دائر کرتے ہوئے قانونی طور پر چیلنج کیا تھا اور عدالت نے ان کے موقف کی تائید کرتے ہوئے عدم اعتماد کی تحریک کو رد کردیا تھا۔
تاہم عدالت نے بدھان نگر میونسپل کارپوریشن کے چیرپرسن سے کہا تھا کہ وہ عدم اعتماد کی تحریک کیلئے دوبارہ نوٹس دے سکتی ہیں اور 19جولائی کو ووٹنگ کرایا جاسکتا ہے۔
مگر لوک سبھا انتخابات کے بعد پاورپلانٹ کے خلاف احتجاج میں سبیاچی دتہ شرکت کی اور ریاستی حکومت کی سخت کی اور کہا کہ وہ پارٹی کے موقف کے برخلاف عوام کے ساتھ ہیں۔اس کے بعد ہی ریاستی وزیر فرہادحکیم نے بدھان نگرمیونسپل کارپوریشن کے کاؤنسلروں کے ساتھ میٹنگ کی اور اس میٹنگ میں سبیاچی دتہ کو نہیں بلایا گیا۔اور ڈپٹی میئر تاپش چٹوپادھیائے سے کہا کہ وہ میونسپلٹی کے کام دیکھیں۔اس کے فوری بعد سبیاچی دتہ نے مکل رائے کے ساتھ میٹنگ کی اس کے بعد ہی پارٹی نے میئر کے عہدہ سے انہیں ہٹانے کا فیصلہ کرلیا۔ان کے خلاف عدم اعتماد تحریک میں کل 35کونسلرز نے دستخط کیے تھے۔