مغربی بنگال میں این آر سی کے ممکنہ طور پر نفاذ کی خبروں کے درمیان مختلف دفاتر کے باہر اپنے شہری دستاویزات درست کرانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
راشن دفتر یو یا کارپوریشن کا پیدائش اور موت کا سند دینے والا محکمہ ہر جگہ بھیڑ نظر آرہی ہے۔
بڑے پیمانے پر بنگال میں این آر سی کی مخالفت کی جارہی ہے۔اس سلسلے میں جوائنٹ فورم اگینسٹ این آر سی سب سے زیادہ سرگرم ہے جس کی قیادت میں ہزاروں افراد نے این آر سی کے خلاف گورنر ہاؤس تک مارچ کیا تنظیم کی جانب سے گورنر کو میمورنڈم بھی پیش کیا گیا ۔
جوائنٹ فورم اگینسٹ این آر سی کی جانب سے منعقد ایک ریلی میں ہزاروں افراد نے شرکت کی سیالدہ سے ریلی دھرمتلہ تک پہنچی جوائنٹ فورم اگینسٹ این آر سی کے ایک اہم رکن امتیاز علی ملا کا کہنا ہے کہ صرف این آر سی ہی نہیں مرکز کی جانب سے جو این آر پی ہونے والا ہے وہ بھی تشویش کی بات ہے اور شہریت کے سلسلے میں جو 2003 میں ایکٹ لایا گیا تھا وہ بھی خطرناک ہے جس طرح سے شہریت کے لیے شرائط طے کیے جا رہے ہیں وہ بہت خطرناک ہے۔
بنگال بی جے پی کے صدر کہتے ہیں کہ ایک بھی ہندو کو ملک سے باہر نہیں جائے گا اس کا مطلب وہ مسلمانوں کو نشانہ بنائیں گے وہ لوگ این آر سی کے خطرناک عزائم سے گمراہ کرنے کے لیے اس کو ہندو مسلم کا معاملہ بنا رہے ہیں لیکن یہ عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں اس میں کسی کا بھلا نہیں ہے اگر یہ ہندوؤں کے لیے نقصاندہ نہیں ہے تو آسام میں 13 لاکھ ہندو این آر سی سے باہر کیوں ہیں۔
انہوں نے محمود مدنی کے بیان پر بھی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ کچھ نام نہاد مسلمان ہیں جو این آر سی کی صرف اس لیے حمایت کر رہے ہیں کہ اس سے مسلمانوں کو کم نقصان پہنچا ہے آسام میں این آر سی سے باہر ہونے والے مسلمانوں کی تعداد ہندوؤں سے کم ہے لیکن یہ ہندو مسلم کا مسئلہ نہیں ہے یہ انسانیت کا مسئلہ ہے۔
اس تنظیم کے ایک اور رکن منظر جمیل نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ہماری تنظیم لگاتار این آر سی کے خلاف احتجاج کر رہی ہے اور آئندہ بھی کرتی رہے گی اور ہم کسی صورت میں بنگال میں این آر سی نافذ نہیں کرنے دیں گے ۔
ہم نے گورنر کو میمورنڈم بھی دیا ہے اور ان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مرکز تک ہماری بات پہنچائے کہ بنگال کی عوام اس کے خلاف ہیں اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ جمعیت علمائے ہند کے جنرل سکریٹری محمود مدنی کے پورے ملک میں این آر سی کرانے کے بیان کی مذمت کی اور کہا کہ محمود مدنی بھارت کے 30 کروڑ مسلمانوں کی نمائندگی نہیں کرتے ہیں اور ان کا قابل مذمت ہے ہم این آر سی کے خلاف اپنی تحریک جاری رکھیں گے۔