خودکشی پر اکسانے کے معاملے میں متنازع صحافی ارنب گوسوامی کو ضمانت دینے کے پیچھے کے اسباب کی وضاحت کرتے ہوئے ڈی وائی چندر چوڑ اور اندرا بنرجی پر مشتمل سپریم کورٹ کی ایک بینچ نے کئی باتیں سامنے رکھیں، جن میں ریاستی عوام کے خلاف شہریوں کے بنیادی حقوق کے دفاع میں عدالتوں کی کردار پر روشنی ڈالی۔
بینچ نے بجا طور پر یہ بات کہی کے ایک دن کی آزادی سے محروم رکھنا بھی بہت زیادہ ہے، عدالت نے یہ بھی کہا کہ مجرمانہ قانون شہریوں کے انتخابی ہراسانی کا ذریعہ نہیں بننا چاہیے، عدالت عظمیٰ نے نچلی عدالت کو ضمانت کی اہمیت بھی یاد دلائی۔
البتہ سیاسی رسوخ رکھنے والے ایک انتہائی مراعات یافتہ قومی درجہ کے صحافی ارنب گوسوامی ہی اکیلے ایسے شخص نہیں ہیں جنہیں انتخابی ہراسانی کا سامنا ہے بلکہ ہزاروں بے قصور افراد زیر سماعت قیدی بن کر جیلوں میں سڑ رہے ہیں، جو صرف ایک دن سے نہیں بلکہ مہینوں اور سالوں سے اپنی تمام آزادیوں سے محروم ہیں۔
ان میں سے بیشتر ایسے لوگ ہیں جنہیں ان کے سیاسی نظریے ذات کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر ریاستی انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے ان میں صحافی سماجی کارکن طلبا اور عام بدنصیب لوگ شامل ہیں ان کی تعداد پچھلے چند سالوں میں ظالمانہ قوانین کے استعمال اور مخالفت کے تئیں حکومت کی عدم برداشت کے رویے کی وجہ سے کافی بڑھ گئی ہے۔ اگر اس صورتحال کو آگے بھی جاری رہنے دیا جائے تو یہ آئینی حقوق کو بے معنی اور عدلیہ کو بے اثر بنا دے گی۔
سپریم کورٹ کے مذکورہ مشاہدات کی روشنی میں پاپولر فرنٹ ملک بھر کی عدالتوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ صورتحال کا نوٹس لے اور تمام زیر سماعت قیدیوں کی فوری رہائی کے لیے قدم اٹھائیں۔