اس سیمینار میں عصمت چغتائی کے افسانوں نے اردو ادب کو کس طرح متاثر کیا اور معاشرے میں خواتین کے حالات اور ان کی نفسیات کو اپنے افسانوں کے ذریعے معاشرے کی عکاسی کی اس پر سیر حاصل بحث کی گئی۔
عصمت چغتائی نے اردو زبان و ادب پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں ۔ ان کی تخلیقات کے ذریعے عورتوں کی نفسیات کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ نہایت ہی سلیس لب و لہجے میں ان کے افسانوں نے معاشرے کی سچائی کو پیش کیا ہے۔
اس وقت ثبوت ان کی مقبولیت میں آج بھی کوئی کمی نہ آنا ہے لیکن اپنی غیر روایتی تخلیقات میں ان چھوئے موضوعات کو پیش کرنے کی وجہ سے کئی بار تنازعات کا شکار ہونا پڑا ہے۔
ان سب باتوں سے ان کا قلم کبھی نہیں لڑکھڑایا اور ایک کے بعد ایک بے باک افسانے لکھتی رہیں ۔ ادب کو انہوں نے حقیقت پسندانہ ادب کے ذریعہ انہوں نے بیسویں صدی کے اردو ادب میں ایک اہم آواز کے طور اپنی شناخت بنائی۔
21 اگست 1915 میں ان کی پیدائش اتر پردیش کے بدایوں میں ہوئی تھی ان کے قلم نے جس شجاعت کا مظاہرہ کیا ۔ وہ بے نظیر ہے۔ اردو ادب کو وقت سے آگے لے جانے والے افسانہ نگاروں کی صف میں وہ سب سے آگے نظر آتی ہیں۔
بے باکی سے اپنے تخلیقات میں اپنے آزادانہ خیالات کا اظہار کرنے والے فنکاروں کو ہمیشہ سے ہی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ عصمت چغتائی بھی اسی صف کے فنکاروں میں ہیں۔
وہ اردو ادب کے سب سے طاقتور آواز کے طور پر ابھری تھی۔ ان کے افسانوں میں آزادی سے قبل کے بھارت کی خواتین کی گھریلو زندگی ان کی نسوانی خواہشات کے متعلق بہت بے باکی سے باتیں کی ہیں انہیں نت عورتوں کے ذہنی پیچیدگیوں ان کی بندشوں اور ان کے نشوانی خواہشات کو اپنے تخلیقات میں بھی جگہ دی تھی۔
ان کی 108 ویں یوم پیدائش پر کولکاتا کے مومن پور گورنمنٹ ڈگری گرلس کالج کے شعبہ اردو میں یک سیمینار کرکے ان کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔
کالج کی طالبات نے عصمت چغتائی پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس کے علاوہ کالج کے دوسرے اساتذہ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ کالج کی صدر شعبہ اردو شبنم پرون نے اس موقع پر ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ عصمت چغتائی جیسے فنکاروں کی کمی کوئی پورا نہیں کر سکتا ہے۔
لیکن آج بھی ان کی ضرورت شدت سے محسوس کی جاتی ہے ان کی تحریروں نے عورتوں اور خصوصی طور پر مسلم خواتین کو جو عزم و حوصلہ عطا کیا ہے ۔
وہ نا قابل فراموش ہے ۔ان کی تخلیقات کے ذریعہ ان کو محسوس کیا جا سکتا ہے اور وہ آج بھی اپنے بے پناہ روشن تخلیقات کے ذریعہ ہمارے درمیان موجود ہیں اور ہمارے حوصلے کو بلند پرواز کے لئے تحریک دیتی
ہیں۔