کولکاتا: مغربی بنگال میں چند دن قبل شمالی بنگال یونیورسٹی کے فنانس ڈیپارٹمنٹ نے وائس چانسلر کی ہدایات کے مطابق یونیورسٹی کے صحت، تعلیم اور انتظامی شعبوں کو ایک نوٹیفکیشن جاری کیا تھا کہ اپنے اخراجات میں 30 سے 50 فیصد کمی کریں۔ اس سال مارچ تک ایسا کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ شمالی بنگال کی دیگر یونیورسٹیوں میں بھی صورت حال یکساں ہے۔ ریاست کے اعلیٰ تعلیم کے وزیر برتیا باسو نے اس معاملے کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔ تاہم محکمہ تعلیم کے ایک اہلکار کا دعویٰ ہے کہ اگر یونیورسٹی اتھارٹی کو لگتا ہے کہ رقم کم دی گئی ہے تو اگر وہ اخراجات کا حساب دیدیں تو رقم واپس کردی جائے گی۔
یونیورسٹیوں کے بعض افسران نے بتایا کہ تنخواہوں کی عدم ادائیگی، بجلی کے بلوں، کیمیکلز اور لیبارٹری کے کام کے لیے مختلف آلات کی خریداری سے لے کر امتحانی کتابیں دیکھنے کے لیے ممتحن کے معاوضے پر خرچ کرنا پڑتا ہے۔ اگر مختص رقم کم ہے تو تعلیم سے متعلق چیزوں کی خریداری میں روکاوٹ آسکتی ہے۔ مثال کے طور پرپروجیکٹ، سمینار، 'سمپوزیم، روزانہ ضروریات کے چھوٹے کام کے لیے رقم مختصر کی جائے۔ اخبارات اور کتابیں خریدنے کے لیے رقم کی کمی ہے۔
ریاستی حکومت اور چانسلر کے درمیان تنازع کی وجہ سے شمالی بنگال کی مختلف یونیورسٹیوں کو اس مسئلے کا سامنا ہے۔ ریاستی محکمہ تعلیم کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ 12 دسمبر کو محکمہ خزانہ کی منظوری کے بعد اکتوبر دسمبر سہ ماہی میں حاصل کردہ رقم یونیورسٹیوں میں تقسیم کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اگر ایسا لگتا ہے کہ یہ مختص نہیں ہو سکے گا تو رقم خرچ کرنے کے بعد ضرورت کے حساب سے رقم دوبارہ دستیاب ہوںگی۔
کوچ بہار میں واقع پنچنن برما یونیورسٹی کی انتظامیہ نے کہا ہے کہ انہیں چند روز قبل جو تھوڑی سی رقم ملی تھی وہ بقایا جات کی ادائیگی کے لیے خرچ کر دی گئی ہے۔اب فنڈ کی کمی ہے۔جنوبی دیناج پور یونیورسٹی کو ابھی تک ان تین مہینوں کی رقم نہیں ملی ہے۔ تاہم تمام اخراجات کے حسابات بھیج دیے گئے ہیں۔ وائس چانسلر دیبرت مترا نے کہاکہ استعمال کا سرٹیفکیٹ (UC) اخراجات کا بھیج دیا گیا ہے۔ امید ہے کہ رقم جلد مل جالے گی۔بصورت دیگر مسائل پیدا ہوں گے۔ یونیورسٹی کے ذرائع کے مطابق انہیں50,000روپے ماہانہ ادا کرنے پڑتے ہیں کیونکہ ان کے پاس اپنی عمارت نہیں ہے۔ اساتذہ کی بھرتی نہیں ہونے کی وجہ سے پارٹ ٹائم اساتذہ سے کام لیا جارہا ہے ۔انہیں اعلیٰ معیار کی تنخواہ نہیں دی جارہی ہے ۔گیسٹ یا کنٹریکٹ اساتذہ، نان ٹیچنگ سٹاف کو بھی نان سیلری سیکٹر سے پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ وائس چانسلر اور فنانس آفیسر کے اخراجات کے علاوہ باقی تمام اخراجات محکمہ سے پورے کیے جاتے ہیں۔ اس کے لیے ہر تین ماہ بعد کم از کم 40 لاکھ روپے کی ضرورت ہے۔
علی پور دوار یونیورسٹی وائس چانسلر نے بھی کہا ہے کہ ان کی یونیورسٹی کو مالی بحران کا سامنا ہے۔شمالی دیناج پور کے رائے گنج یونیورسٹی کی انتظامیہ نے بتایا کہ انہیں 14 لاکھ روپے دیے گئے ہیں۔ اس رقم سے تین ماہ کے اخراجات پورے نہیں ہوں گے۔ دوبارہ پیسے مانگنے کی ضرورت ہے۔ اسٹاف کی بھرتی سے متعلق بے ضابطگیوں کے الزامات کی وجہ سے گاؤڈینگ یونیورسٹی میں چار سال سے زائد عرصے سے اس شعبےمیں کوئی بحالی نہیں ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مغربی بنگال کے پہاڑی علاقوں میں سیاحوں کا ہجوم
آخری سہ ماہی کے لیے مختص رقم موصول نہیں ہوئی۔ شمالی بنگال زرعی یونیورسٹی کو اس شعبے میں تین ماہ میں 63 لاکھ روپے کی ضرورت ہے۔ انہیں پچھلی سہ ماہی میں بہت ہی کم رقم ملی ہے۔یونیورسٹیوں کی انتظامیہ کا خیال ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو یونیورسٹی جیسے اعلیٰ تعلیمی اداروں کو بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یو این آئی