نوبل انعام یافتہ اور ماہر معاشیات امرتیہ سین نے ملک میں بات چیت اور اتفاق کی کم ہوتی گنجائش پر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے دعوی کیا ہے کہ من مانے طریقے سے لوگوں پر غداری کا الزام عائد کر کے انہیں جیل بھیجا جارہا ہے حالانکہ اکثر سین کی تنقید کا ہدف بننے والی بی جے پی نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔
ستاسی سالہ امرتیہ سین ایک انٹرویو کے دوران نئے زرعی قوانین کی مخالفت میں جاری کسانوں کے احتجاج کی حمایت کرتے نظر آئے ہیں۔
یہاں انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان قوانین پر نظر ثانی کے لیے اہم نقطہ یہی ہے کہ نئے زرعی قوانین کے خلاف کسان مظاہرہ کررہے ہیں۔ حالانکہ پہلے ضرورت اس بات کی ہے کہ ان قوانین پر معقول بحث کی جائے نہ کہ مبینہ طور پر بڑی رعایت دینے کی بات کہی جائے جو اصل میں بہت معمولی رعایت ہوگی۔
ماہر معاشیات کا یہ بھی کہنا ہے کہ کوئی شخص جو حکومت کو ناپسندیدہ ہو اسے حکومت کے ذریعہ ہی 'دہشت گرد' قرار دے دیا جارہا ہے۔ عوامی مظاہرے کے کئی مواقع اور بات چیت محدود کردی گئی یا پھر انہیں بند کردیا گیا ہے۔ نااتفاقی اور بات چیت کی گنجائش کم ہوتی جارہی ہے۔
امرتیہ سین نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا ہے کہ کنہیا کمار، شہلا رشید اور عمر خالد جیسے نوجوانوں کے ساتھ دشمنوں کا جیسا رویہ اختیار کیا گیا۔ جب حکومت کوئی غلطی کرتی ہے تو اس سے عوام کا نقصان ہوتا ہے، اس بارے میں نہ صرف بولنے کی اجازت ہونی چاہیے بلکہ یہ عملی سطح پر ضروری بھی ہے اور جمہوریت بھی اس کا مطالبہ کرتی ہے۔