ریاست مغربی بنگال کے دارالحکومت کولکاتا میں واقع واحد اقلیتی ملی الامین کالج کا وجود ان دنوں خطرے میں ہے۔ لاک ڈاؤن سے قبل ہی کالج میں تعلیمی سرگرمیاں مکمل طور پر بند تھیں۔ اب اس کے وجود کو لے کر کئی طرح کی باتیں سامنے آرہی ہیں۔
ملی الامین کالج بچاؤ کمیٹی کا کہنا ہے کہ 'کالج کا اقلیتی کردار ختم کر دیا گیا ہے۔ لیکن انتظامیہ کمیٹی حکومت کے خلاف عدالت جانے کے بجائے عوام کو اس حوالے سے گمراہ کر رہی ہے۔انہوں نے انتظامیہ کمیٹی سے عوام کے سامنے حقائق لانے کا مطالبہ کیا۔'
ملی الامین کالج کا اقلیتی کردار تو پہلے سے ہی موضوع بحث تھی۔ اب کالج کا وجود بھی خطرے میں نظر آرہا ہے۔ چند روز قبل ہی کالج کی انتظامیہ کمیٹی کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ کالج کو اب خود کفیل بنایا جائے گا۔کالج کو نجی طور پر چلایا جائے گا۔
حکومت مغربی بنگال کے محکمہ اعلی تعلیم کی جانب سے گذشتہ 12 جون 2020 کو ایک نوٹس جاری کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ وزیر تعلیم پارتھو چٹرجی کے ساتھ متعدد بار انتظامیہ کمیٹی کے ساتھ کالج میں تعلیمی سرگرمیوں کو بحال کرنے کے لئے میٹنگ کی گئی لیکن کالج میں ابھی بھی معمول کے مطابق تعلیمی سرگرمی بحال نہیں ہوئی ہے۔
اسی خط میں حکومت کی طرف سے واضح کیا گیا کہ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو حکومت سخت کارروائی کرے گی جس میں کالج کا پئے پیکٹ اور دوسری مالی مدد بند کرنا بھی شامل ہوگا۔
اس سلسلے میں ملی الامین کالج بچاؤ کمیٹی کے رکن ڈاکٹر فواد حلیم نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'چند روز قبل کالج کی انتظامیہ کمیٹی نے ایک میٹنگ میں اقرار کیا ہے کہ کالج کا اقلیتی کردار باقی نہیں رہا ہے۔ ساتھ ہی کالج کو نجی طور پر چلانے کی بات سامنے آئی ہے۔'
انہوں نے کہا کہ 'کالج کا اقلیتی کردار باقی نہیں رہا اور اب اس میں کئی طرح کی سازش ہو رہی ہے۔
کالج کی آرگنائزنگ کمیٹی ملی ایجوکیشنل آرگنائزیشن یہ واضح نہیں کر رہی ہے کہ کالج کے اقلیتی کردار کا کیا ہوگا اور نہ ہی ریاستی حکومت واضح کر رہی ہے کہ وہ کالج کے اقلیتی کردار کے متعلق کیا سوچتی ہے۔ لیکن ملی الامین کالج بچاؤ کمیٹی اس کے خلاف تحریک چلائے گی۔
ملی الامین کالج کے آرگنائزنگ کمیٹی کے رکن انور کریمی نے کہا کہ 'ایک کالج کو نجی طور پر چلانا بہت مشکل کام ہے۔ ایک کالج کو اتنے سالوں کی محنت سے قائم کیا گیا، اس کو اب نجی طور پر چلانے کی بات کہی جا رہی ہے جو سمجھ سے بالا تر ہے ۔
انور کریمی نے کہا کہ 'دوسری جانب مسلمانوں کی ہمدرد سمجھی جانے والی حکومت کالج کے اقلیتی کردار کے حوالے سے اپنا ارادہ واضح کیوں نہیں کر رہی ہے یہ بات سمجھی میں نہیں آتی ہے۔'
انہوں نے کہا کہ 'ہم کالج کی انتظامیہ کمیٹی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ جو بھی مسائل ہیں ان کو عوام کے سامنے لائے عوام کو ملوث کیا جائے اور کالج کے وجود کو بچانے کے لئے بڑی تحریک چلائی جائے۔
ایک اور رکن مطیع الرحمان نے کہا کہ 'بہت افسوس کی بات ہے کہ بنگال جیسے سیکولر ریاست میں اقلیتوں کا ایک ادارہ اس طرح سے بند ہونے کے قریب ہے۔ حکومت سے اپیل ہے کہ کالج کا اقلیتی کردار بحال کرے اور اس کو بچائے۔'