مالدہ: ہندوستان بھر میں ایم بی اے چائے والا کی شہرت کے درمیان اب مغربی بنگال کے مالدہ ضلع کے کالیاچک علاقے میں دو انجینئروں نے بے روزگاری سے مایوس ہونے کے بجائے دو پیسہ کمانے کے لئے بی ٹیک چائے والا کے نام سے چائے کی دکان کھول دی۔ مقامی باشندوں نے ان کی کوششوں کی تعریف کی۔ Inspired By MBA Chai Wala Now Wwo B Tech Passed Runs Tea Stall In Maldah West Bengal
ایک بی ٹیک اور دوسرے انجنیئرنگ میں ڈپلومہ کی ڈگری حاصل کرنے والے نوجوان کی جانب سے چائے کی اسٹال کھولنے پر پوری ریاست میں موضوع بحث بن گئے ہیں۔ اسی وجہ سے ان کی دکان چل پڑی ہے۔ مالدہ ضلع میں واقع غنی خان چودھری انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ ٹکنالوجی کے دونوں سابق طلباء عالمگیر خان اور راہل علی کالی چک کے رہائشی ہیں نے یکم جنوری کو شہر کے جھلجھلیا علاقے میں بی ٹیک چائے والا کے نام سے چائے کے اسٹال کا افتتاح کیا۔
جب دونوں نے اپنی دکان کھولی تو کسی نے ان کی حوصلہ افزائی کی تو کسی نے ان پر تنقید کی ۔جہاں خان نے بی ٹیک کی ڈگری حاصل کی ہے، علی نے کمپیوٹر انجینئرنگ میں ڈپلومہ مکمل کیا ہے۔ ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات چیت میں، عالمگیر نے اپنی آزمائش اور جدوجہد کا خلاصہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ پہلے میں نے GKCIET سے سرٹیفکیٹ اور ڈپلومہ کورس کیا۔ پھر کولکاتا کے ایک نجی انجینئرنگ کالج سے مکینیکل انجینئرنگ میں بی ٹیک کیا۔ یہ سفر میرے لئے بہت مشکل تھا۔ ایک وقت میں، ہمیں سرٹیفکیٹ کے لئے جی کے سی آئی ای ٹی کے سامنے احتجاج کرنا پڑا۔ بالآخر جب مجھے سرٹیفکیٹ ملا تو میری کافی عمر ہو چکی تھی۔ مجھے بی ٹیک پاس کرنے کے بعد ملازمت کی کئی پیشکشیں آئیں۔ لیکن 12,000-20,000 روپے تنخواہ تھیں ۔وہ بھی دوسری ریاستوں میں۔
ان کا کہنا ہے کہ حال ہی میں انہیں راجکوٹ کی ایک کمپنی میں 12,000 روپے کی نوکری کی آفر ملی۔ لیکن اتنے پیسوں سے راجکوٹ جا کر کام کرنا ان کے لئے ناممکن تھا۔ اسی دوران ہمیں اس ریاست میں ایم بی اے چائے والا کے بارے میں معلومات حاصل ہوئی ۔ ہمیں ان سے تحریک ملی، لہذا ہم دونوں نے چائے کی دکان بھی کھولی۔
راہل علی نے کہا کہ ریاست میں تقریباً سرکاری کارخانے نہیں ہیں۔ اس وقت جو چند کارخانے چل رہے ہیں وہ سب نجی ملکیت میں ہیں ۔بے روزگاری کی وجہ سے سینکڑوں نوجوانوں کے مستقبل پر خطرہ منڈلانے لگا ہے۔ تقریباً ہر دوسری گلی میں انجینئرز موجود ہیں۔ کمپنیاں کسی ایک کو اتنی ہی رقم فراہم کرنے کے بجائے 30,000 روپے کی کل لاگت پر تین انجینئروں کی خدمات حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ اس وقت ملک بھر میں تقریباً 47 فیصد انجینئرز بے روزگار ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:Loan Repayment برے قرض کی ادائیگی آسان طریقے سے کیسے کریں
علی کے مطابق اس دوران غیر یقینی صورتحال اور معاشی بحران کے سبب تعلیم یافتہ نوجوان درمیان میں ہی جد و جہد ترک کرکے دوسرے دھندے میں اترنے پر مجبور ہیں۔اض2017 میں، ہم دونوں نے GKCIET سے انجینئرنگ میں ڈپلومہ پاس کیا۔ وہاں B.Tech کے نصاب میں ایک مسئلہ تھا۔ مالی مجبوریوں کی وجہ سے میری پڑھائی اچانک رک گئی۔
ان کا کہنا ہے کہ کسی طرح سے تعلیم مکمل کی ۔پھر اس کے بعد ڈگری ملی۔ملازمت کی پیشکش بھی ہوئی لیکن کہیں سے توقع کے مطابق تنخواہ کی آفر نہیں ہوئی۔Inspired By MBA Chai Wala Now Wwo B Tech Passed Runs Tea Stall In Maldah West Bengal