ETV Bharat / state

Islamophobia in West Bengal: بنگال میں اسلاموفوبیا کا بڑھتا رجحان، ماب لنچنگ کے واقعات میں اضافہ

author img

By

Published : Apr 1, 2022, 5:07 PM IST

مذہبی رواداری کے لیے مشہور مغربی بنگال میں اب مسلسل مذہبی منافرت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مغربی بنگال میں اسلاموفوبیا کا بھی دائرہ وسیع ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ گذشتہ چند ماہ کے درمیان بنگال میں متعدد ماب لنچنگ کے واقعات سامنے آ چکے ہیں۔ گذشتہ دنوں مرشدآباد کے لال گولا، ہوڑہ، مغربی مدنا پور اور دینا جپور میں مسلم نوجوانوں کو پیٹ پیٹ کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔ بنگال مسلم دانشوروں کا کہنا ہے ریاست میں اسلاموفوبیا کا دائرہ وسیع ہوا ہے اور یہ حالات ایک دن میں پیدا نہیں ہوئے۔ Increasing Islamophobia in West Bengal

increasing-islamophobia-in-bengal-moblynching-happening-day-by-day
بنگال میں اسلاموفوبیا کا بڑھتا رجحان، ماب لنچنگ کے واقعات میں اضافہ

گذشتہ چند ماہ سے مغربی بنگال میں ماب لنچنگ کی خبریں موصول ہورہی ہے۔ اس دوران متعدد مسلم نوجوانوں صرف اس لیے پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا گیا کہ وہ مسلمان تھے۔ عام طور پر ایسے معاملے میں یہ کہا جاتا ہے کہ چور کے شبہ میں لوگوں نے پیٹ پیٹ کر مار دیا، جبکہ مسلم دانشوروں کا کہنا ہے کہ یہ ایک بہانہ ہے۔ عام طور پر بنگال کے گاؤں دیہاتوں میں راہ چلتے ہوئے نام پوچھ پوچھ کر مسلم نوجوانوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے Moblynching Happening Day by Day۔ سنہ 2020 سے اب تک کئی ماب لنچنگ کے واقعات سامنے آچکے ہیں۔ مالدہ مرشدآباد اور ہوڑہ میں اس طرح کے واقعات رونما ہوئے تھے۔ Increasing Islamophobia in West Bengal

ویڈیو

چند ماہ قبل ہی مرشدآباد کے لال گولا میں ایک مسلم نوجوان کو ٹرین سے نیچے پھینک دیا گیا تھا۔ حال ہی میں انیس خان کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا۔ گذشتہ 15 مارچ کو مغربی مدنا پور کے سنگ پاڑہ کوتوالی تھانہ علاقے میں شیخ پلٹو کو چور بتاکر بھیڑ نے قتل کر دیا جس کی قیادت فوج میں بحال جینتو منڈل نے کی تھی جسے پولیس نے اس معاملے میں گرفتار بھی کیا تھا۔ اس کے بعد گذشتہ دنوں شمالی دیناجپور کے کرن دیگھی تھانہ کے کچرا گرام میں ذہنی طور پر معذور 22 سالہ ضمیرالدین منڈل کو چور ہونے کے شبہ میں بھیڑ نے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا۔ پولس معاملے کی جان کر رہی ہے۔

  • بنگال میں ماب لنچنگ کے لگاتار بڑھتے واقعات کیا اسلاموفوبیا کے بڑھتے رجحان کا نتیجہ ہے ؟

اس سلسلے میں ای ٹی وی بھارت نے مغربی بنگال کے مسلم دانشوروں سے بات کی جن کی مسلم معاشرے پر نظر رہتی ہے۔ کلکتہ ہائی کورٹ کے سنئیر وکیل شاہد امام سے ای ٹی وی بھارت نے اس سلسلے میں بات کی۔ انہوں نے کہاکہ بنگال میں فرقہ پرست عناصر تو موجود ہیں ہی، لیکن سوال یہ ہے کہ حکومت کیا کر رہی ہے۔ ممتا بنرجی وزیر اعلی کے علاوہ ریاستی وزیر داخلہ بھی ہیں، انہوں ماب لنچنگ کو روکنے کے لیے کیا کیا، کوئی بھی کسی مار دیتا ہے اور حکومت کا رویہ اس سلسلے میں بالکل بھی غیر جانب درانہ معلوم نہیں ہوتا۔ آج سے 15 روز قبل ایک مسلم نوجوان کو مدنی پور میں بھیڑ نے مار ڈالا حکومت کی طرف سے کیا کارروائی کی گئی۔ یہاں تک میڈیا میں بھی اس بات کی چرچا نہیں ہوئی، زیادہ تر اخباروں میں یہ خبر شائع نہیں ہوئی۔ یہاں اخبار کے نام پر پارلیمنٹ پہنچ چکے ہیں، لیکن اپنے اخبار میں اس خبر کو جگہ نہیں دے پائے۔ اس کے بعد حکومت بس معاوضہ کا اعلان کر دیتی ہے شراب پی کر مرنے والوں کے لیے بھی معاوضہ کا اعلان کیا جاتا ہے۔

increasing Islamophobia in bengal moblynching happening day by day
بنگال میں اسلاموفوبیا کا بڑھتا رجحان، ماب لنچنگ کے واقعات میں اضافہ

دیناجپور میں ایک مسلم نوجوان کو مار دیا گیا اور کہہ دیا جاتا ہے کہ چور تھا یا مجرم تھا اور اگر تھا بھی تو اس کو مارنے کا حق بھیڑ کو کس نے دیا ہے؟ اسلاموفوبیا کا اثر بہت بڑھ گیا ہے، سیکولر جماعتوں میں بھی اسلاموفوبیا کا اثر ہے۔ ترنمول کانگریس پر اسلاموفوبیا کا اثر ہے بابل سپریو جیسے اسلاموفوبیا کے علمبرادر کو ترنمول کانگریس نے بالی گنج اسمبلی حلقہ سے ضمنی انتخابات میں امیدوار بنایا ہے۔'


بنگال میں اسلاموفوبیا کے بڑھتے اثرات کے تناظر میں بنگال کے سیاسی و سماجی حالات پر نظر رکھنے والے جادب پور یونیورسٹی کے پروفیسر عبد المتین نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ آج جو بنگال میں نفرت کا ماحول ہے یہ ایک دن میں نہیں ہوا ہے۔ گذشتہ 15 برسوں سے یہ سب چل رہا ہے۔ آر ایس ایس اور اس کے ذیلی تنظیمیں اس بار مقامی سطح پر کام کر رہے ہیں اور ترنمول کانگریس پارٹی نے بھی اس چیز کو گاؤں دیہات میں بڑھاوا دیا ہے۔'

حال ہی میں مرشدآباد میں ایک مسلم نوجوان کو ٹرین سے نیچے پھینک دیا گیا جس میں اس کی موت ہو گئی تھی۔ اس نفرت انگیز مہم کا اثر اب معاشرے پر پڑنے لگا ہے۔ اس کے علاوہ پولیس کا جو رول ہے جیسے انیس خان کے معاملے میں ہم نے دیکھا۔ یہاں تک جو پولیس میں مسلم ہیں وہ بھی محفوظ نہیں ہیں۔ سونار پور کے پولیس کانسٹبل شہراب خان کی بھی ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، لیکن کسی طرح اس کی جان بچ گئی۔ اس طرح کی چیزیں پورے بھارت میں ہو رہی ہیں اور بنگال اس سے کچھ الگ نہیں ہے، جس طرح سے دکھایا جاتا ہے کیونکہ بنگال میں جس طرح سے تشدد ہو رہا ہے بھارت کے کسی ریاست میں نہیں ہو رہا ہے۔'


واضح رہے کہ گذستہ کئی برسوں میں بنگال میں مسلمانوں کو ماب لنچنگ کا نشانہ بننا پڑا ہےم اس کے علاوہ کرناٹک حجاب تنازعہ کا اثر یہاں بھی نظر آیا۔ مرشدآباد اور شمالی 24 پرگنہ میں باحجاب لڑکیوں کو اسکول میں داخل یونے سے روکا گیا۔ بنگال کے تعلیم یافتہ مسلمانوں اور دانشوروں کے مطابق کئی علاقے ایسے ہیں جہاں محض مسلمان کے بنا پر ان پر حملہ کر دیا جاتا ہے۔ بنگال میں اسلاموفوبیا کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے اور حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔'

گذشتہ چند ماہ سے مغربی بنگال میں ماب لنچنگ کی خبریں موصول ہورہی ہے۔ اس دوران متعدد مسلم نوجوانوں صرف اس لیے پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا گیا کہ وہ مسلمان تھے۔ عام طور پر ایسے معاملے میں یہ کہا جاتا ہے کہ چور کے شبہ میں لوگوں نے پیٹ پیٹ کر مار دیا، جبکہ مسلم دانشوروں کا کہنا ہے کہ یہ ایک بہانہ ہے۔ عام طور پر بنگال کے گاؤں دیہاتوں میں راہ چلتے ہوئے نام پوچھ پوچھ کر مسلم نوجوانوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے Moblynching Happening Day by Day۔ سنہ 2020 سے اب تک کئی ماب لنچنگ کے واقعات سامنے آچکے ہیں۔ مالدہ مرشدآباد اور ہوڑہ میں اس طرح کے واقعات رونما ہوئے تھے۔ Increasing Islamophobia in West Bengal

ویڈیو

چند ماہ قبل ہی مرشدآباد کے لال گولا میں ایک مسلم نوجوان کو ٹرین سے نیچے پھینک دیا گیا تھا۔ حال ہی میں انیس خان کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا۔ گذشتہ 15 مارچ کو مغربی مدنا پور کے سنگ پاڑہ کوتوالی تھانہ علاقے میں شیخ پلٹو کو چور بتاکر بھیڑ نے قتل کر دیا جس کی قیادت فوج میں بحال جینتو منڈل نے کی تھی جسے پولیس نے اس معاملے میں گرفتار بھی کیا تھا۔ اس کے بعد گذشتہ دنوں شمالی دیناجپور کے کرن دیگھی تھانہ کے کچرا گرام میں ذہنی طور پر معذور 22 سالہ ضمیرالدین منڈل کو چور ہونے کے شبہ میں بھیڑ نے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا۔ پولس معاملے کی جان کر رہی ہے۔

  • بنگال میں ماب لنچنگ کے لگاتار بڑھتے واقعات کیا اسلاموفوبیا کے بڑھتے رجحان کا نتیجہ ہے ؟

اس سلسلے میں ای ٹی وی بھارت نے مغربی بنگال کے مسلم دانشوروں سے بات کی جن کی مسلم معاشرے پر نظر رہتی ہے۔ کلکتہ ہائی کورٹ کے سنئیر وکیل شاہد امام سے ای ٹی وی بھارت نے اس سلسلے میں بات کی۔ انہوں نے کہاکہ بنگال میں فرقہ پرست عناصر تو موجود ہیں ہی، لیکن سوال یہ ہے کہ حکومت کیا کر رہی ہے۔ ممتا بنرجی وزیر اعلی کے علاوہ ریاستی وزیر داخلہ بھی ہیں، انہوں ماب لنچنگ کو روکنے کے لیے کیا کیا، کوئی بھی کسی مار دیتا ہے اور حکومت کا رویہ اس سلسلے میں بالکل بھی غیر جانب درانہ معلوم نہیں ہوتا۔ آج سے 15 روز قبل ایک مسلم نوجوان کو مدنی پور میں بھیڑ نے مار ڈالا حکومت کی طرف سے کیا کارروائی کی گئی۔ یہاں تک میڈیا میں بھی اس بات کی چرچا نہیں ہوئی، زیادہ تر اخباروں میں یہ خبر شائع نہیں ہوئی۔ یہاں اخبار کے نام پر پارلیمنٹ پہنچ چکے ہیں، لیکن اپنے اخبار میں اس خبر کو جگہ نہیں دے پائے۔ اس کے بعد حکومت بس معاوضہ کا اعلان کر دیتی ہے شراب پی کر مرنے والوں کے لیے بھی معاوضہ کا اعلان کیا جاتا ہے۔

increasing Islamophobia in bengal moblynching happening day by day
بنگال میں اسلاموفوبیا کا بڑھتا رجحان، ماب لنچنگ کے واقعات میں اضافہ

دیناجپور میں ایک مسلم نوجوان کو مار دیا گیا اور کہہ دیا جاتا ہے کہ چور تھا یا مجرم تھا اور اگر تھا بھی تو اس کو مارنے کا حق بھیڑ کو کس نے دیا ہے؟ اسلاموفوبیا کا اثر بہت بڑھ گیا ہے، سیکولر جماعتوں میں بھی اسلاموفوبیا کا اثر ہے۔ ترنمول کانگریس پر اسلاموفوبیا کا اثر ہے بابل سپریو جیسے اسلاموفوبیا کے علمبرادر کو ترنمول کانگریس نے بالی گنج اسمبلی حلقہ سے ضمنی انتخابات میں امیدوار بنایا ہے۔'


بنگال میں اسلاموفوبیا کے بڑھتے اثرات کے تناظر میں بنگال کے سیاسی و سماجی حالات پر نظر رکھنے والے جادب پور یونیورسٹی کے پروفیسر عبد المتین نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ آج جو بنگال میں نفرت کا ماحول ہے یہ ایک دن میں نہیں ہوا ہے۔ گذشتہ 15 برسوں سے یہ سب چل رہا ہے۔ آر ایس ایس اور اس کے ذیلی تنظیمیں اس بار مقامی سطح پر کام کر رہے ہیں اور ترنمول کانگریس پارٹی نے بھی اس چیز کو گاؤں دیہات میں بڑھاوا دیا ہے۔'

حال ہی میں مرشدآباد میں ایک مسلم نوجوان کو ٹرین سے نیچے پھینک دیا گیا جس میں اس کی موت ہو گئی تھی۔ اس نفرت انگیز مہم کا اثر اب معاشرے پر پڑنے لگا ہے۔ اس کے علاوہ پولیس کا جو رول ہے جیسے انیس خان کے معاملے میں ہم نے دیکھا۔ یہاں تک جو پولیس میں مسلم ہیں وہ بھی محفوظ نہیں ہیں۔ سونار پور کے پولیس کانسٹبل شہراب خان کی بھی ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، لیکن کسی طرح اس کی جان بچ گئی۔ اس طرح کی چیزیں پورے بھارت میں ہو رہی ہیں اور بنگال اس سے کچھ الگ نہیں ہے، جس طرح سے دکھایا جاتا ہے کیونکہ بنگال میں جس طرح سے تشدد ہو رہا ہے بھارت کے کسی ریاست میں نہیں ہو رہا ہے۔'


واضح رہے کہ گذستہ کئی برسوں میں بنگال میں مسلمانوں کو ماب لنچنگ کا نشانہ بننا پڑا ہےم اس کے علاوہ کرناٹک حجاب تنازعہ کا اثر یہاں بھی نظر آیا۔ مرشدآباد اور شمالی 24 پرگنہ میں باحجاب لڑکیوں کو اسکول میں داخل یونے سے روکا گیا۔ بنگال کے تعلیم یافتہ مسلمانوں اور دانشوروں کے مطابق کئی علاقے ایسے ہیں جہاں محض مسلمان کے بنا پر ان پر حملہ کر دیا جاتا ہے۔ بنگال میں اسلاموفوبیا کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے اور حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔'

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.