کولکاتا:گزشتہ جولائی میں مغربی بنگال کی 27 یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کی میعاد میں توسیع کی جانی تھی۔ لیکن چانسلر بوس نے وائس چانسلر کے طور پر صرف تین کی میعاد میں توسیع کی گئی۔ بقیہ 24 وائس چانسلر اپنے عہدے سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس وقت، گورنر نے کہاتھا کہ انہیں ان 24 وائس چانسلروں سے متعلق یونیورسٹیوں سے مطلوبہ ہفتہ وار رپورٹس موصول نہیں ہوئی ہیں۔ اسی لیے ان کی مدت ملازمت میں توسیع نہیں کی جارہی ہے۔ تاہم، 2019 کے قواعد کے مطابق، وائس چانسلر اور چانسلرکے درمیان براہ راست رابطہ ممکن نہیں ہے۔وائس چانسلر راج بھون سے بکاش بھون کے ذریعے رابطہ کرتے ہیں۔ اس طرح ان وائس چانسلروں نے وکاس بھون کو رپورٹ بھیجی۔
گزشتہ ہفتے ایک ویڈیو پیغام گورنر نے اس پورے معاملے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وائس چانسلرز کی مدت ملازمت میں توسیع نہیں کرنے کی تین وجوہات ہیں۔انہوں نے کہا کہ آپ جاننا چاہیں گے کہ ہم حکومت کی طرف سے نامزد کردہ وی سی کی تقرری کیوں نہیں کر سکے۔ ان میں سے کچھ بدعنوان تھے، ان میں سے کچھ نے کیمپس میں سیاست کی، ان میں سے کچھ نے کیمپس میں ایک طالبہ کے ساتھ بدتمیزی کی۔ ہم ان کی میعاد کیسے بڑھا سکتے ہیں؟
12 سابق وائس چانسلروں نے گورنر کے اس بیان پر اعتراض کیا۔ ان کے مطابق چانسلر اگر چاہیں تو ان کی میعاد میں توسیع نہیں کر سکتے۔ لیکن آپ ہم لوگوں کے بارے میں اہانت آمیز الفاظ نہیں پھیلا سکتے ہتں۔ رانی راش منی گرین یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر آشوتوش گھوش نے کہا کہ آچاریہ بغیر کسی ثبوت کے ہمارے بارے میں ایسے تبصرے کیسے کر سکتے ہیں؟ ہماری بدنامی ہوئی ہے۔ ہمیں سماجی اور جذباتی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:University Bill In Bengal یونیورسٹی ترمیمی بل کی منظوری میں تاخیر پر عدالت نے راج بھون سے جواب طلب کیا
نوٹس میں کہا گیا ہے کہ گورنر کو اگلے 15 دنوں کے اندر سب کے سامنے اپنے بیان پر معافی مانگنی ہوگی۔ اگر ایسا نہیں کیا تو سابق وائس چانسلر گورنر کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کریں گے۔ اس کے ساتھ 50 لاکھ روپے کے معاوضے کا بھی مطالبہ کیا جائے گا۔ اوم پرکاش مشرا نے کہا کہ ان کا یہ قانونی خط گورنر کو نہیں بلکہ یونیورسٹی کے چانسلرکو لکھا گیا ہے۔