مغربی بنگال کے مرشدآباد ضلع سے گزشتہ 19 ستمبر کو این آئی اے نے چھ مسلم نوجوانوں کو مبینہ طور پر القاعدہ سے تعلق رکھنے کے الزام میں ڈومکل، جالنگی اور رانی نگر تھانہ علاقے سے گرفتار کیا ہے۔ جبکہ مرشدآباد کے ہی تین نوجوانوں کو کیرالا سے گرفتار کیا گیاہے ۔ایک ہی خاندان کے ایک سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
اس گرفتاری کے بعد مسلم مخالف بیانات سامنے آنے لگے ہیں۔ بی جے پی کے رہنماؤں کی طرف سے مرشدآباد ضلع کو دہشت گرد کی آماجگاہ قرار دیا جانے لگا ہے۔
مرشدآباد ضلع سے مسلمانوں کی گرفتاری پر کئی حقوق انسانی تنظیموں نے حقائق جاننے کے لئے مرشدآباد ضلع کے ان علاقوں کا دورہ کیا اور اس معاملے کی اصل حقیقت سامنے لانے کے لیے کئی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ تیار کی ہے۔
فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ تیار کرنے والوں میں اے پی سی آر ،اے پی ڈی آر اور بندی مکتی تنظیموں کے ارکان شامل تھے۔
ان تنظیموں کے دس رکن پر مشتمل ایک ٹیم نے فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ تیار کی ہے۔ جن میں حامد سرکار (رکن سے پی ڈی آر)، مطیع الرحمن (رکن اے پی ڈی آر)،توحید الاسلام (نائب صدر بندی مکتی کمیٹی)،چھوٹن داس (جنرل سیکریٹری بندی مکتی کمیٹی)، محمد عبدالصمد ریاستی (کنوینر اے پی سی آر)، ریا دے (رکن دلت کیمرا)، بھانو سرکار(رکن بندی مکتی کمیٹی)، رفیق الاسلام (رکن اے پی سی آر)،سید امتیاز علی(فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کو آرڈینیٹر،اے پی سی آر)، عبدالغنی (رکن اے پی ڈی آر) شامل تھے۔
آج کولکاتا میں اس معاملے میں فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ معروف سماجی کارکن سجاتا بھدرا نے میڈیا کے سامنے پیش کی۔
انہوں اس موقع پر کہا کہ گزشتہ 2014 میں بھی کھاگڑا گڑھ معاملے میں ایک ماں کو شیر خوار بچے کے ساتھ گرفتار کیا گیا۔
حقوق انسانی کی خلاف ورزی کی گئی۔ اسی طرح مرشدآباد معاملے میں بھی حقوق انسانی کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔
ملزمین کے گھر والوں سے بات کرنے کا موقع بھی نہیں دیا گیا ہے۔ القاعدہ جیسے تنظیموں سے تعلق رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔
کہا گیا ہے کہ ابو سفیان کے گھر میں سرنگ ملا ہے۔ 'ہم نے جب اس کے گھر کا دورہ کیا تو پتہ چلا کہ وہ بیت الخلاء کا حوض ہے۔ گرفتاری کے بعد سے اس معاملے کا کوئی فولو اپ نہیں ہے۔
این آئی اے کے عدالت میں ملزمین سے جب جج نے پوچھا کہ گھر والوں کو پتہ ہے آپ لوگوں کے بارے میں تو ان کا جواب نفی میں تھا۔
جس پر جج نے اپنا موبائل فون دیکر ان کو گھر والوں سے بات کرائی۔ گھر والوں سے رابطہ کرنے کا موقع بھی نہیں دے کر ان کے بنیادی کی پامالی کی گئی۔ جن کو گرفتار کیا گیا ہے ان میں کوئی یومیہ مزدور ہے۔ تو کوئی الیکٹرک مستری ہے۔
کوئی کیرالہ میں مزدوری کر رہا ہے۔ برسو سے گرام میں آہستہ آہستہ پکا مکان بنانے والے پر یہ الزام لگایا ہے کہ القاعدہ کے پیسے سے مکان بنایا گیا ہے۔ مرکزی حکومت سے غریبوں کا پکا مکان بھی برداشت نہیں ہو رہا ہے۔'
انہوں نے مزید کہا کہ مرشدآباد مسلم اکثریتی ضلع ہونے کی وجہ سے بھی جانچ ایجنسیوں کے نشانے پر ہے۔ 'ہم ایک اور تفصیلی رپورٹ بھی اس سلسلے میں جاری کریں گے۔'
ای پی سی آر کے ریاستی کنوینر محمد عبدالصمد نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ مرشدآباد مسلم اکثریتی علاقہ ہے یہی وجہ ہے کہ اس کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔ یہاں پر نا خواندگی بہت زیادہ ہے۔ غریب عوام ہیں۔
اس طرح کی کارروائی کے پش پردہ سیاسی مقاصد کار فرما ہیں۔ یہاں کے مسلمانوں کو خوف زدہ کرنا ان کا مقصد ہے۔ سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جن کے گھر والوں کو این آئی اے گرفتار کرتی ہے ان سے باقی سماج کا رشتہ منقطع ہو جاتا ہے۔'
ان کو الگ تھلگ کر دیا جاتا ہے۔ کوئی ان کے ساتھ کھڑا نہیں ہوتا ہے۔ 'ہم نے ان کے پڑوسیوں سے اس سلسلے میں بات کی ان کا بھی یہی کہنا ہے۔ مرشدآباد کے خلاف جو یہ مہم شروع کی گئ ہے آئندہ دنوں میں یہاں کے لوگوں کے بنیادی حقوق انسانی حقوق کے لئے خطرہ بن رہی ہے۔