کولکاتا کا واحد اقلیتی ادارہ ملی الامین کالج کا قیام ملت کے بچیوں کی اعلی تعلیم کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے عمل میں آیا تھا۔ لیکن گزشتہ تقریبا پانچ برسوں سے کالج تنازع کا شکار ہے اور اپنی بقاء کے لئے کوشاں ہے۔
کالج کمیٹی کے جانب سے کئی حکومت سے کالج میں اقلیتی کردار کو بحال نہیں کرنے کا مطالبہ کیا گیا لیکن موجودہ حکومت نے سرکاری طور پر کالج کے اقلیتی کردار کو بحال نہیں کیا، لہذا کالج کے بانی کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ اب حکومت سے اس سلسلے میں کوئی گفت و شنید نہیں ہو گی۔ اپنے حق کے لئے اب عدالت کا دروازے کھٹکھٹایا جائے گا ۔
اطلاعات کے مطابق کولکاتا کے مسلمانوں نے 1975 میں ایک ملی و تعلیمی ادارے کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے ملی الامین کالج کی بنیاد رکھی تھی۔ جس میں ملت کی بچیوں کو خصوصی طور پر اعلی تعلیم سے آراستہ کرنا اس ادارے کا مقصد تھا اسی لئے اس کو گرلس کالج بنایا گیا۔
کولکاتا کے مسلمانوں نے اس کے لئے اپنے طور پر رقم جمع کی اور زمین خرید کر عمارت بنائی پھر تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس درمیان کالج کو سرکاری منظوری دلانے کے کئے جدوجہد بھی جاری رہی ۔2009 میں آل انڈیا مائناریٹی ایجوکیشنل انسٹیٹوشن کی جانب سے کالج کو اقلیتی ادارے کا درجہ حاصل ہوا۔ اس وقت ریاست میں بایاں محاذ کی حکومت نے کالج کو بحیثیت اقلیتی ادارہ کے طور پر میں قبول کرلیا ۔
2011 میں ریاست میں ممتا بنرجی اقتدار میں آئی اور 2012 میں کالج میں اساتذہ کے درمیان ایک تنازع ہوا جس میں بیشاکھی بنرجی،زرینہ زرین پروین کو اور شبینہ نشاط عمر کے درمیان مارپیٹ کی نوبت آگئی۔ اس کے پیش نظر کالج کے بانی کمیٹی نے کالج سے تینوں ٹیچرز کو معطل کردیا۔ جس کے بعد تینوں ٹیچرز نے کلکتہ ہائی کورٹ میں اپنی معطلی کو غیر قانونی بتاتے ہوئے کالج کے اقلیتی کردار کو چیلنج کردیا۔
عدالت نے ریاستی حکومت سے کالج کے اقلیتی کردار پر حلف نامہ دینے کو کہا۔جس میں ریاستی حکومت نے جواب میں کہا کہ ملی الامین کالج اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔ جس کے بعد سے تنازعہ آج تک جاری ہے۔
کالج کے اقلیتی کردار کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچا جہاں فیصلہ کالج کے حق میں آیا۔ لیکن اس کے با وجود بھی آج تک ریاستی حکومت کالج کو ٹال رہی ہے۔
اس دوران کالج کے بانی کمیٹی ملی ایجوکیشنل آرگنائزیشن کے جانب سے ایک پریس کانفرنس منعقد کیا گیا۔ جس میں کمیٹی کی طرف سے واضح کیا گیا کہ حکومت کی وعدہ خلافیوں سے ہم تنگ آگئے ہیں۔ اب ہم حکومت سے کوئی بات چیت نہیں کریں گے۔ کالج کمیٹی نے بتایا کہ محکمہ اعلی تعلیم کی جانب سے ہمیں ایک نوٹس دیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ کالج میں خوشگوار تعلیمی ماحول پیدا کئے جائے ورنہ دیگر صورت کالج کا پئے پیکٹ بند کر دیا جائے گا۔ اس پر بانی کمیٹی کا کہنا ہے کالج کے تعلیمی ماحول کو خراب کرنے کے لئے کالج کی سابق ٹیچر انچارج بیشاکھی بنرجی اور خود حکومت زمہ دار ہے۔اس کے علاوہ بانی کمیٹی کی طرف سے بیشاکھی بنرجی پر کالج کے اہم دستاویزات غائب کرنے کا بھی الزام لگایا گیا۔
ملی ایجوکیشنل آرگنائزیشن کے اسسٹنٹ سیکریٹری محمد شاہنواز عارفی نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 2018 میں سپریم کورٹ نے ہمارے کالج کے اقلیتی کردار کو بحال کردیا تھا لیکن ریاستی حکومت کی طرف سے اس معاملے میں کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی ہے ۔انہوں نے نے کہا کہ ریاستی حکومت نے ہم سے دستور مانگا تھا ہم نے جمع کردیا لیکن حکومت اس معاملے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ اور اپنے طور پر کمیٹی کی تشکیل دے کر ہم پر نئے لوگوں کو مسلط کرتی رہی ہے جو قابل قبول نہیں ہے۔ یہ اقلیتی ادارہ ہے اور اس کی گورننگ باڈی کی تشکیل دینا بانی کمیٹی کا کام ہے ۔ حکومت کے اس افسوسناک رویے سے ہم تنگ آ چکے ہیں عوام کی بھی رائے ہے کہ ہم اپنے حق کے لئے عدالت جائے ہم عدالت جا رہے ہیں۔ بیشاکھی بنرجی کالج میں ایک ٹیچر کی حیثیت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔