مغربی بنگال کے دارالحکومت کولکاتا سے چند کیلو میٹر کی دوری پر واقع مسلم اکثریتی تجارتی علاقہ توپسیا کے ملت نگر میں دارالقضاء امارات شرعیہ دفتر واقع ہے جہاں شرعی عدالت سے متعلق کام کاج ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ' اگر ایسا قانون بنایا جاتا ہے تو اس سے کسی ایک مذہت کو نقصان نہیں ہوگا بلکہ تمام مذاہب کے لوگ متاثر ہوں گے۔'
ان کا کہنا ہے کہ جب 18 برس کا قانون تھا تو لڑکے لڑکیاں 17 برس کی عمر میں ہی شادی کر لیتے تھے۔ ان کی اس حرکت سے گھر والوں کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا اب تو اس میں مزید تین برس کا اضافہ کر دیا گیا ہے یعنی پریشانی اور بڑھ سکتی ہے۔'
مفتی فلاح الدین کے مطابق اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ مجوزہ نیا قانون کا مسلم پرسنل لا پر کتنا اثر انداز ہوتا ہے۔ کیا واقعی یہ قانون مسلم پرسنل لا مداخلت ہے۔ اگر ہے تو اس مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کی جائے گی ورنہ نہیں تو کوئی بات ہی نہیں۔'
انہوں نے کہاکہ' حال ہی ملک کی ایک ہائی کورٹ ایک معاملے کی سماعت میں کہا تھا کہ جس میں مسلم لڑکی 17 اور غیر مسلم لڑکا 33 سال کا تھا کہ شرعی قانون کے تحت جس عمر میں لڑکی بالغ ہو گئی اسی کے تحت شادی کی جا سکتی ہے، لیکن اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ کسی بھی قیمت پر قانون کی خلاف ورزی نہ ہو۔'
ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو اس طرح کے قانون کو پاس کرنے سے پہلے ماہر لوگوں سے رائے مشورہ لینی چاہیے۔ حکومت سے اس قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کیا جانا چاہیے۔'
مزید پڑھیں:
- Rush for Nikah Ahead of New Marriage Law: شادی کی کم از کم عمر میں ترمیم پر مسلم طبقے میں بے چینی؟
- Minimum Age For Marriage Of Women: لڑکیوں کی شادی کی عمر میں ترمیم پر ڈاکٹرز کی رائے؟
- Reaction on Girls Marriages Age: لڑکیوں کی شادی کی عمر میں اضافہ پر مسلم رہنماؤں کا ملا جلا ردعمل
- لڑکیوں کی شادی کی صحیح عمر کیا ہونی چاہیے؟