ایک زمانے تک یہ حلقہ بایاں محاذ کا گڑھ رہا ہے، یہاں سے سابق لوک سبھا اسپیکرو سینئر کمیونسٹ لیڈر سومناتھ چٹرجی یہاں سے انتخاب جیت چکے ہیں۔ممتا بنرجی نے 1984میں اندرا گاندھی کی لہر میں سومنات چٹرجی کو شکست سے دو چار کیا تھا۔
مگر اس مرتبہ ترنمول کانگریس نے پارٹی کے سینئر لیڈر یا پھر کسی اسکالر کو امیدوار بنانے کے بجائے بنگلہ فلموں کی اداکارہ میمی چکرورتی کو امیدوار بناکر سب کو حیران کردیاتھا۔میمی چکرورتی کا کیرئیر اس وقت عروج پر تھا۔
سی پی ایم نے یہاں سے اپنے سینئر ترین لیڈر اور مشہور وکیل اورکلکتہ کارپوریشن کے سابق میئر بکاش رنجن بھٹاچاریہ کو امیدوار بنایا ہے۔
بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کو یقین ہے کہ سی پی ایم نے اپنے سینئر لیڈر کو کھڑا کرکے اپنی زمین کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی ہے۔جادو پور لوک سبھا حلقہ سات اسمبلی حلقوں پر مشتمل ہے اور اس حلقے میں دیہی و شہری دونوں علاقے اور امیرو غریب دونوں ہیں۔جادو پور اور ٹالی گنج اسمبلی حلقہ شہری علاقے پر مشتمل ہے۔روایتی طور یہ حلقے سی پی ایم حامی ہے۔
جادو پور اسمبلی حلقے میں سی پی ایم کو1967سے 2011تک کبھی بھی شکست نہیں ہوئی۔مگر 2011میں حیرت انگیز طور پرسابق وزیرا علیٰ بدھا دیب بھٹاچاریہ انتخاب ہار گئے۔مگر2016میں سی پی ایم کے سوجن چکرورتی نے جیت حاصل کرکے سی پی ایم کے گڑھ کو باقی رکھا۔جادو پور کے ایک باشندے سنجیب باسو نے کہا کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ یہاں سے کون انتخاب جیتے گا یہ کہنا مشکل ہے۔
ترنمول کانگریس اور سی پی ایم کے درمیان سخت مقابلہ ہونے کی توقع ہے۔
ٹالی گنج ودھان سبھا کنوینر اتپال دتہ نے کہاکہ انہیں یقین ہے کہ یہاں سے سی پی ایم کی جیت ہوگی کیوں کہ ہم نے مہم کے دوران اندازہ ہوا ہے کہ عوام ترنمول کانگریس سے ناراض ہیں۔انہوں نے کہا کہ سی پی ایم امیدوار بکاش رنجن بھٹاچاریہ سینئر وکیل ہیں۔اس بنیاد پر عوام وہ آسانی سے رابطہ بنالیتے ہیں۔
دتہ نے کہا کہ چٹ فنڈ گھوٹالہ سامنے آنے کے بعد بکاش رنجن بھٹاچاریہ نے درجنوں افراد کی مدد کرکے چٹ فنڈ کمپنیو کو روپے واپس دلایاہے۔اس کیلئے انہوں نے کبھی بھی فیس نہیں لیا ہے۔بکاش رنجن بھٹاچاریہ نے کہا کہ یقینا مقابلہ سخت ہے مگر عوام کی ہمدردی کی وجہ سے ہمیں یقین ہے کہ ہم یہاں جیت حاصل کریں گے۔
ترنمول کانگریس کے امیدوار سے متعلق بکاش رنجن بھٹاچاریہ نے کہا کہ 'عام لوگوں کا خیال ہے کہ ایک ایسا شخص جو سیاست سے وابستہ نہیں وہ علاقے کی بہترین نمائندگی نہیں کرسکیں گی'۔
کلکتہ پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر معیدالاسلام نے کہا کہ سی پی ایم یہاں سخت مقابلہ دے رہی ہے کیوں کہ کانگریس نے یہاں سے کوئی امیدوار نہیں دیا ہے۔
تاہم 2011کے بعد سی پی ایم کا تنظیمی ڈھانچہ انتہائی کمزور ہوگیا ہے۔بکاش رنجن بھٹاچاریہ کے جلوس میں لوگوں کم بھیڑ س اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔پارٹی کے ساتھ اب صرف تعلیم یافتہ اور نظریاتی افراد بچ گئے ہیں۔
لوگوں کی بھیڑ اب دوسری جگہ منتقل ہے۔سی پی ایم کی تنظیمی کمزوری کا اعتراف کرتے ہوئے بکاش رنجن بھٹاچاریہ نے کہاکہ حالات انتہائی سخت ہیں۔مگر جادو پور کے عوام نے تبدیلی کا نعرہ دیا ہے۔کیوں کہ گزشتہ انتخاب میں ترنمول کانگریس کے غنڈوں نے ووٹ دینے نہیں دیا تھا اس کا سخت رد عمل ہے۔