مغربی بنگال کے توپسیہ میں واقع مدینتہ العلوم انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ مفتی محمد مجاہد حسین حبیبی نے مغربی بنگال میں رہنے والے اقلیتی طبقے کے لوگوں کی حالت ملک کی دوسری ریاستوں کے مسلمانوں سے بہتر بتایا۔
ای ٹی وی بھارت سے گفتگو کرتے ہوئے مفتی محمد مجاہد حسین حبیبی نے کہا کہ 'اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بنگال کے مسلمانوں کی حالت ملک کی دیگر ریاستوں میں رہنے والے اقلیتی طبقے کے مقابلے میں کافی بہتر ہے، وہ چاہے کولکاتا میں رہتے ہو یا پھر دیگر اضلاع میں۔
انہوں نے کہا کہ کئی سال پہلے سچر کمیٹی نے مسلمانوں سے متعلق جو رپورٹ پیش کی تھی اس رپورٹ میں اور آج کے حالات میں کافی فرق آگیا ہے۔ اس دوران بہت کچھ بدل چکا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کولکاتا میں روزگار کے متعدد مواقع ہونے کے سبب یہاں رہنے والے مسلمانوں کی آمدنی اچھی ہے، جس سے یہاں کے مسلمانوں کی حالت کافی بہتر ہے۔
شمالی 24 پرگنہ، جنوبی 24 پرگنہ، مرشدآباد، مالدہ، شمالی دیناج پور، ندیا اور مشرقی مدنی پور جیسے اضلاع میں رہنے والے اقلیتی طبقے کے لوگ کھیتی باڑی زیادہ کرتے ہیں۔ اس بنیاد پر ان کی آمدنی شہر کے مقابلے کم ہوتی ہے۔ جس سے ان کی رہن سہن میں تھوڑا فرق ہو جاتا ہے۔
کولکاتا: مسلم طالبات تک جدید تعلیم پہنچانے میں مدینۃ العلوم انسٹی ٹیوٹ کا اہم کردار
مفتی محمد مجاہد حسین حبیبی نے کہا کہ مغربی بنگال دینی تعلیم کے شعبے میں ملک کی دوسری ریاستوں سے کہیں بھی پیچھے نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ خود تین دینی تعلیمی ادارے چلاتے ہیں جن میں مدینتہ العلوم انسٹی ٹیوٹ قابل ذکر ہے، اس کے علاوہ دوسرے لوگ بھی قدم سے قدم ملا کر دینی تعلیم کو گھر گھر پہنچانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں جو قابل تعریف ہے۔
مفتی محمد مجاہد حسین حبیبی نے بتایا کہ انہوں نے دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ انگریزی تعلیم سے مسلمانوں کے بچوں کو سرفراز کرنے کی تمام تر کوششوں میں مصروف ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گارجین کو اپنے اپنے بچوں کو دینی تعلیم حاصل کرنے اور اسلامی اصولوں کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا ترغیب دینا چاہئے، کیونکہ مستقبل میں انہیں ہی مسلمانوں کے خلاف سازش کرنے والوں کے خلاف جواب دینا پڑے گا۔