کولکاتا:ٹیٹ 2014کے بعد بھرتی دو مرحلے میںکیا گیا ہے۔ایک 2016 میں اور دوسرا 2020 میں۔ جسٹس امریتا سنگھ نے پہلے بورڈ کو دو بھرتی کے عمل کے پینل میں شامل افراد کے نام پیش کرنے کی ہدایت دی تھی ۔منگل 12 دسمبر کو بورڈ نے عدالت میں حلف نامہ داخل کیا۔ کونسل کے مطابق اس سے قبل جسٹس ابھیجیت گنگوپیادھیائے کے حکم پر یک پینل کی فہرست شائع کی گئی تھی۔ لیکن 2016 کے ریکروٹمنٹ رولز کے مطابق پینل کو شائع کرنے کا کوئی اصول نہیں ہے۔ لیکن عدالت بورڈ آف پرائمری ایجوکیشن میں دو بھرتی کے عمل کے پورے پینل کو دیکھنا چاہتی ہے۔ جسٹس سنگھ نے کہا کہ عدالت کو تقرری پینل کو دیکھنے کا حق حاصل ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ بورڈ پینل میں شامل افراد کے نام کو کیو ں چھپانا چاہتی ہے۔
اس کیس کی ابتدائی سماعت میں جسٹس سنگھ نے غیر قانونی طور پر کام کرنے والے 94 لوگوں کو برخاست کرنے کا حکم دیا تھا۔ بورڈ کے وکیل نے 30 نومبر کی سماعت میں کہا کہ 94 افراد کی تقرری خالی آسامیوں پر کی گئی ہے۔ یہاں تک کہ، سامنے آنے والے دو پینل درست نہیں ہیں۔ پینل کے لیے مزید وقت دیں۔
جسٹس سنگھ سن کر حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ غریب کتنے دنوں انتظار کرے گا! ہر دن ان کے لیے قیمتی ہے۔ امیدواروںکی عمر گزر رہی ہے۔انہوں نے یہ بھی کہاکہ ڈیڑھ ماہ کا وقت دیا گیا ہے۔ اس کے بعد بیان حلفی نہیں دے سکے؟ اگر وکلاء پر دباؤ بڑھتا ہے تو بورڈ کو نئے وکلاء کی تقرری کرنی چاہئے۔ عدالت نے بورڈ کو مزید سات دن کی مہلت دی۔ جج نے کہا کہ 7 دسمبر تک بورڈ کو دو تقرری کے عمل کے پینل کو حلف نامہ میں عدالت میں پیش کرنا ہوگا۔ اس کیس کی سماعت 12 دسمبر کو ہوئی تھی۔ جہاں جج نے پینل شائع نہ کرنے پر بورڈ کی تنقید کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں:ارکان پارلیمان کی معطلی سے ممتا بنرجی برہم
جسٹس سنگھ نے اپنے تبصرے میں کہا تھا کہ میں پرائمری پینل دیکھنا چاہتی ہوں۔ مدت ختم ہونے سے پہلے ایک پینل تیار کیا جاتا ہے۔ میں اسے دیکھنا چاہتی ہوں۔ عدالت کو ریکروٹمنٹ پینل کو دیکھنے کا حق حاصل ہے۔ جسٹس سنگھ نے کہاکہ کیا آپ بھرتی پینل کو ظاہر کیے بغیر کسی کو چھپانا چاہتے ہیں؟ یہ پینل گھر میں رکھنے کی پراپرٹی نہیں ہے۔ اگر پینل شائع ہوتا ہے تو مشکل کہاں ہے؟انہوں نے یہ بھی کہا کہ جو جسٹس گنگوپادھیائے کے حکم سے ایک بار شائع ہوا ہے، اسے دوسری بار شائع کرنا کیوں مشکل ہے۔ اس مرتبہ پرائمری بورڈ نے ڈویژن بنچ سے رجوع کیا اور اس پینل کو شائع کرنے کے جسٹس سنگھ کے حکم کو چیلنج کیا۔
یو این آئی