بابل سپریو بی جے پی سے وابستہ طلبا تنظیم اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد یعنی اے بی وی پی کی طرف سے منعقد ایک پروگرام میں شامل ہونے کے لیے یونیورسٹی پہنچے تھے۔
انہیں پروگرام میں حصہ لینے سے پہلے ہی تقریبا 2 بجے بائیں بازو کی تنظیموں کے طلبا نے حملہ کرکے یرغمال بنا لیا تھا۔ وائس چانسلر سورنجن داس نے مرکزی وزیر کو طلبا کے قبضہ سے نکالنے کے لئے پولیس بلانے سے انکار کر دیا تھا۔
یونیورسٹی میں حملے اور گھنٹوں تک انہیں یرغمال بنا کر رکھے جانے کے بعد حالات پر کنٹرول کے لیے گورنر دھن کڑ وہاں پہنچے اور ریاست کے چیف سکریٹری ملے ڈے کو فون کرکے فوری طور پر کاروائی کرنے کے لیے کہا۔
انہوں نے کافی مشقت کے بعد سپریو کو طلبا کے قبضہ سے آزاد کرایا لیکن جب وہ انہیں اپنی کار میں لے کر باہر نکلنے لگے تو مین گیٹ پر طلبا نے ان کے قافلہ کا راستہ روک لیا۔
داس طلبا اور اور سپریو کے سیکورٹی گارڈوں کے مابین تصادم کے دوران بیمار ہوگئے اور انہیں اسپتال میں داخل کرانا پڑا۔ پرو وی سی کو بھی اسپتال میں داخل کرانا پڑا ہے۔
گورنر شام کو تقریبا سات بجے یونیورسٹی پہنچے۔ بائیں بازو کے طلبا نے انہیں بھی سپریو کے پاس جانے سے روکنے کی کوشش کی۔ انہیں پہلے کار کے اندر رہنے کا مشورہ دیا گیا لیکن کچھ دیر بعد وہ پولیس کے ساتھ اندر گئے اور سپریو کو اپنے ساتھ اپنی کار میں لے کر باہر نکلنے لگے تواس دوران طلبا نے مین گیٹ پر ان کے قافلہ کا راستہ روک لیا۔
بعد میں پولیس حکام کی مداخلت کے بعد دھن کڑ اور سپریو بحفاظت یونیورسٹی کمپلکس سے باہر نکل سکے۔ اے بی وی پی کے کارکنوں نے سپریو کو یرغمال بنائے جانے کے خلاف اپوزیشن طلبا تنظیم کے کئی سائن بورڈ کو آگ لگا دی۔
اس سے پہلے راج بھون کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ گورنر نے غیر قانونی طریقہ سے ایک مرکزی وزیر کو یرغمال بنا کر رکھنے کے اس واقعہ کو بہت سنجیدگی سے لیا ہے۔ یہ واقعہ ریاست کی امن و قانون کی اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی سنجیدگی بیان کرتا ہے۔
گورنر دھن کڑ نے واقعہ پر سخت تشویش ظاہر کی ہے اور اس وقت دہلی میں موجود وزیراعلی ممتا بنرجی سے فون پر بات چیت کی ہے۔ انہوں نے چیف سکریٹری کو فوری طور پر کاروائی کرنے کے لئے کہا جنہوں نے فوری طور پر پولیس کمشنر کو ہدایت جاری کی۔