نینی تال: اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے اترکاشی کے پرولا میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے معاملے میں ریاستی حکومت کو قانونی کارروائی کرنے کی ہدایت دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی حکومت سے تین ہفتوں میں جواب دینے کو بھی کہا گیا ہے۔
عدالت نے اس معاملے پر سوشل میڈیا پر کسی بھی قسم کی بیان بازی اور بحث پر بھی پابندی لگا دی ہے۔
چیف جسٹس وپن سنگھی اور جسٹس راکیش تھپلیال کی مشترکہ بنچ نے آج دہلی کی ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس کی طرف سے دائر پی آئی ایل کی سماعت کی۔
درخواست گزار کی جانب سے کہا گیا کہ ہری دوار کے ایک معاملے میں سپریم کورٹ نے پولیس کے ڈائریکٹر جنرل کو ہدایت دی تھی کہ جہاں کہیں بھی محکمہ پولیس کو تعزیرات ہند کی دفعہ 153اے، 153بی، 295اے اور 505 کی خلاف ورزی کا معاملہ دکھائی دے، وہ شکایت کا انتظار کیے بغیر محکمہ پولیس اس معاملے کا از خود نوٹس لے اور ملزم کے خلاف ضروری کارروائی کرے۔
عرضی گزار کی جانب سے کہا گیا کہ ایسا ہی واقعہ اتراکھنڈ کے پرولا میں بھی سامنے آیا ہے، لیکن محکمہ پولیس اور حکومت کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھا رہی ہے۔ ہندو تنظیموں کے خط کا حوالہ دیتے ہوئے درخواست گزار نے کہا کہ اترکاشی ضلع انتظامیہ کی طرف سے اس معاملے میں کوئی الزام درج نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی ملزم کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی ہے۔
درخواست گزار کی جانب سے کہا گیا ہے کہ خط میں مسلم کمیونٹی کے لوگوں کو نشانہ بناتے ہوئے انہیں دھمکی دی گئی ہے کہ وہ اپنی دکانوں، کاروبار سمیت جونپور وادی چھوڑ دیں ورنہ جمنا پل کو بلاک کرنے کی بات کہی گئی ہے۔
درخواست گزار کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ ہندو تنظیموں کی جانب سے 15 جون کو ہی ہندو مہاپنچایت بلائی گئی تھی، جس کی وجہ سے وادی میں ماحول خراب ہونے کا اندیشہ تھا۔
دوسری جانب ایڈوکیٹ جنرل ایس این بابولکر اور چیف اسٹینڈنگ کونسل سی ایس راوت حکومت کی جانب سے عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت کو بتایا کہ درخواست سیاسی طور پر محرک ہے۔ درخواست گزار کو حقائق کا علم نہیں۔
یہ واقعہ ٹہری ضلع میں نہیں بلکہ اترکاشی کے پرولا میں پیش آیا۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت اور پولیس کی جانب سے ٹھوس اقدامات کیے گئے ہیں۔ پورے علاقے میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے۔ دو ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ حکومت کی مداخلت کے بعد 15 جون کو بلائی گئی مہاپنچائیت کو ملتوی کر دیا گیا ہے۔ ڈی جی پی پورے واقعہ پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
انہوں نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ درخواست میں حقائق یک طرفہ طور پر بیان کیے گئے ہیں۔ دوسری طرف سے بھی مہاپنچایت بلائی گئی ہے۔ ایڈوکیٹ جنرل نے عرضی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ دہلی میں فسادات اور فرقہ وارانہ تشدد کے سلسلے میں درخواست گزار کی طرف سے کبھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
دونوں فریقین کو سننے کے بعد عدالت نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ تین ہفتوں میں اس پورے واقعہ کے بارے میں حلف نامہ جمع کرائیں۔ اس کے ساتھ ہی افواہوں کو روکنے کے لیے سوشل میڈیا پر بحث کرنے اور کسی بھی قسم کے مواد کو وائرل کرنے پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔
درخواست گزار کی جانب سے کہا گیا کہ اس نے اس معاملے کے حوالے سے سپریم کورٹ میں درخواست بھی دائر کی تھی لیکن عدالت عظمیٰ نے اس معاملے کی سماعت سے انکار کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی اتراکھنڈ ہائی کورٹ میں عرضی داخل کرنے کی بھی چھوٹ دی گئی۔
واضح رہے کہ اترکاشی کے پرولا میں ایک نابالغ کے اغوا کو لے کر کافی دنوں سے کشیدگی برقرار ہے۔ اس معاملے میں دو نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔
یواین آئی۔