کانگریس کے سینیئر لیڈر اور سابق مرکزی وزیر غلام نبی آزاد نے ان دنوں اتراکھنڈ کے دورے پر ہیں۔ اس دوران انہوں نے ایک پروگرام میں شرکت کی اور جموں و کشمیر کو مکمل ریاست کا درجہ بحال کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ بحال کرنے کے بعد وہاں انتخابات ہونے چاہئیں'۔
جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد شہید اعظم بھگت سنگھ کی تقریب میں شرکت کرنے کے لیے مسوری آئے تھے۔ اس دوران انہوں نے کشمیر سمیت ملک کی صورتحال پر بہت کچھ کہا۔
انہوں نے کہا کہ ملک کی ہر ریاست تقریباً 70-72 سال پرانی ہے۔ جبکہ جموں و کشمیر کو ریاست بنے تقریباً 176 برس ہوچکے ہیں سنہ 1846 میں ریاست بنی تھی۔ انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے ان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ جموں و کشمیر کی ریاست کا درجہ بحال کیا جائے اور انتخابات کرائے جائیں پھر باقی مسائل پر بات کریں گے۔'
اس موقع پر انہوں نے کسان کی تحریک پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا انہوں نے راجیہ سبھا کے رہنما کے طور پر اپنے خطاب میں بھی یہ مسئلہ اٹھایا تھا۔ ایوان میں وزیر اعظم نریندر مودی کے سامنے کہا کہ برطانوی دور حکومت میں اس طرح کی چھ تحریکیں تھیں، جو سال بھر جاری رہیں۔ آخر میں برطانوی حکومت کو جھکنا پڑا اور قانون واپس لینا پڑا تھا'۔
انہوں نے بتایا کہ سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کی دور اقتدار میں راکیش ٹکیٹ کے والد مہندر سنگھ ٹکیٹ نے سنہ 1988 میں احتجاج کیا تھا۔ حالانکہ ان کے پیرول 10 لاکھ کسانوں کو لے کر احتجاج کرنا تھا، لیکن اس سے دو دن پہلے مہندر سنگھ ٹکیٹ پچاس ہزار کسانوں کے ساتھ ووٹ کلب میں ہکا اور چارپائی کے ساتھ آئے تھے۔
- مزید پڑھیں: انتخابات سے قبل ریاستی درجہ بحال کیا جائے: غلام نبی آزاد
- پریس کونسل آف انڈیا اور ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا کو محبوبہ کا خط، صحافیوں کو ہراساں کرنے کا الزام
غلام نبی آزاد نے مودی سرکار کو تجویز دی ہے کہ وہ زرعی قوانین واپس لیں۔ ساتھ ہی ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پارلیمانی سیاست اور ذاتی سیاست دونوں مختلف ہیں۔ پارلیمنٹ میں ہم ایک دوسرے کے اقدامات پر تنقید کرتے ہیں۔ حکومت کسان بل کو غلط لائی، تحریک اس کے خلاف ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کسی وزیر کو گالیاں دیں۔ ہر ایک کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ پارلیمنٹ کے ارکان ہیں اور وہ لوگوں کے منتخب کردہ رہنما ہیں۔ ملک کی آزادی میں بھی اختلافات تھے۔ گاندھی جی کا راستہ مختلف تھا۔ اشفاق اللہ خان اور سبھاش چندر بوس کا راستہ مختلف تھا، لیکن سب کا ایک ہی مقصد تھا۔'