لکھنؤ: آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سیکریٹری ظفریاب جیلانی کا آج لکھنؤ کے نشاط اسپتال میں انتقال ہوگیا، جس کے بعد ملی سماجی و سیاسی حلقوں میں سوگ کی لہر ہے۔ ظفر یاب جیلانی کے انتقال کے بعد عوام میں جو سب سے زیادہ موضوع بحث ہے وہ بابری مسجد و رام جنم بھومی کیس ہے۔ اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ظفریاب جیلانی سے بھارت کے پانچ وزرائے اعظم نے مذاکرات کی پیشکش کی تھی لیکن وہ اپنے فیصلے پر اٹل رہے اور بابری مسجد کا کیس پوری پائیداری و استقلال کے ساتھ لڑتے رہے۔ یہ الگ موضوع ہے کہ سپریم کورٹ نے مندر کے حق میں فیصلہ دیا۔
انہوں نے مقامی عدالت سے لے کر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں مسجد کے مقدمات کی پیروی کی جس کی تعریف ان کی رہائش گاہ پر پہونچی سرکردہ شخصیات برجستہ کررہی ہیں۔ ظفریاب جیلانی کے طویل مدت تک ہمراہ رہے محمد احمد بتاتے ہیں کہ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں قانونی مشیر کے طور پر ہمیشہ پیش پیش رہے۔ مولانا مرحوم رابع حسنی ندوی سے ان کی بے انتہا قربت تھی بلکہ ظفریاب جیلانی، مولانا مرحوم علی میاں ندوی کے بے حد قریبی رہے ہیں اور تمام تر معاملات میں ان سے مشورہ لیا جاتا تھا۔ محمد علی بتاتے ہیں کہ لکھنؤ سمیت ملک کے الگ الگ علاقوں میں جہاں بھی ملی رفاہی کاموں کی بات ہوتی تھی تو ظفریاب جیلانی صاحب بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور بھرپور تعاون کرتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں:
انہوں نے بتایا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں دوران طالب علمی میں بھی کئی تحریکوں سے وابستہ رہے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو بحال کرنے میں بھی پیش پیش تھے اس تحریک سے کئی دنوں تک وابستہ رہے۔ اس کے علاوہ انجمن اصلاح المسلمین کےسیکریٹری کے عہدے پر پر کئی برس تک خدمات انجام دیں جس کے زیرانتظام لکھنؤ کی کئی تعلیمی ادارے ہیں خاص طور سے اسلامیہ کالج ممتاز پی جی کالج و دیگر قبرستان و مساجد کی بخوبی خدمات انجام دی۔
2002 میں بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے کنوینر کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں انہوں نے بابری مسجد کے مقدمات کی پورے دم خم کے ساتھ لڑنے میں اور مسجد کی تعمیر کے حوالے سے ہمیشہ جدوجہد کی۔ وکلاء تنظیم کے صدر پردیپ کمار بتاتے ہیں کہ ظفریاب جیلانی ایک سچے مسلمان ہونے کے ساتھ وہ مکمل انسان تھے تھے انہیں ہندو مسلم سبھی مذاہب کے ماننے والوں میں یکساں مقبولیت حاصل تھی ایک طرف جہاں مسلمان ان کی صحت یابی کے لئے دعا کر رہا تھا تو دوسری طرف ہندو ان کے ٹھیک ہونے کے لیے منت سماجت کر رہا تھا۔ جیلانی صاحب نہ صرف لکھنؤ میں بلکہ ملک کے الگ الگ علاقوں میں بے پناہ عوام کی مدد کی۔
انہوں نے وکالت کے پیشہ کو صاف ستھرا اور ایمانداری کے ساتھ انجام دیا جو موجودہ دور میں نادرونایاب ہے ۔ وہ بتاتے ہیں کہ جیلانی صاحب ایک بار اپنے ہندو دوست کے لیے سماج وادی پارٹی کے صدر اکھیلش یادو سے میرے سامنے لڑ گئے تھے۔ ااترپردیش کے سابق اطلاعاتی کمشنر حیدر عباس کہتے ہیں کہ ظفریاب جیلانی کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ ان کو پانچ وزرائے اعظم نے بابری مسجد پر مذاکرہ کرنے کی پیشکش کی لیکن وہ اپنے فیصلے پر اٹل ہیں اور قوم کے جذبات کا سودا نہیں کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ جب بھی بابری مسجد اور رام جنم بھومی کیس کی تاریخ رقم کی جائے گی تو ظفریاب جیلانی کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔