ابتدائی تفتیش و خودکشی نوٹ کے مطابق مقامی سماج وادی پارٹی کے رہنما شمیم نعمانی کو ان کی خود کشی کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔

سرکل آفیسر ابھیشیک کمار پانڈے نے بتایا کہ پولیس خودکشی کی اطلاع ملتے ہی موقع واردات پر پنچی اور لاش کو قبضے میں لے پوسٹ مارٹم کے لیے بھیج دیا۔
ملزم شمیم نعمانی کے خلاف دفعہ 306 کے تحت کیس درج کر لیا گیا ہے، فی الحال شمیم نعمانی کو گرفتاری کرنے کی کوشش جاری ہے۔

رضوانہ تبسم کی بہن نصرت جہاں نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ صبح کو وہ بینک میں پیسہ لینے گئیں تھیں اسی دوران ان کو اطلاع ملی کہ ان کی بہن نے خودکشی کر لی ہے۔
رضوانہ تبسم کی والدہ اختر جہاں نے بتایا کہ رضوانہ ایک کمرہ میں اپنے لیپ ٹاپ پر دیر رات تک کام کرتی تھیں آج صبح دیر تک دروازہ نہ کھلنے پر دروازہ کھٹکھٹایا گیا اس کے بعد پھر دروازے کو توڑا گیا تو دیکھا کہ رضوانہ کمرے میں لگے پائپ سے دوپٹہ کے ذریعے بے جان لٹکی ہوئی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ایک مقامی سماج وادی پارٹی کے رہنماء شمیم نعمانی نامی شخص کو رضوانہ نے خود کشی نوٹ میں خود کشی کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔
رضوانہ تبسم کے والد عزیز الحکیم نے بتایا کہ رضوانہ گاؤں کی تیز طرار، باہمت اور بے باک صحافی تھیں جو نہ صرف لاک ڈاؤن میں بے آوازوں کی آواز بنی ہوئی تھیں بلکہ ضرورتمند و غریبوں کو راشن بھی پہنچانے کا کام کر رہی تھیں۔
پڑوسی صمد نے بتایا کہ گاؤں کے لوگوں کو ہمت اور جذبہ دینے والی رضوانہ تبسم نے خودکشی کرلی یہ یقین کرپانا مشکل ہو رہا ہے۔ آج رضوانہ تبسم کی خودکشی پر نہ صرف پورا گاؤں غم میں ڈوبا ہوا ہے بلکہ بنارس کے میدان صحافت میں ان کو ہمیشہ یاد کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ رضوانہ تبسم نے اپنی دھار دار قلم کے ذریعے بنارس کی صحافت کو پروان چڑھانے کا کام کیا ہے اور ان کی متعدد اسٹوریز بین الاقوامی سطح پر مقبول ہوئی ہیں۔
بنارس کے لوہتا تھانہ علاقے کے ہرپال پور گاؤں کی رہائشی رضوانہ تبسم نے اپنے سات برس کی ملازمت کے دور میں گھر کے خرچ سنبھالتی تھیں، ابتدائی ملازمت مدرسے سے شروع کی جہاں بچوں کو تعلیم دیتی تھیں اس کے بعد انہوں نے کاشی ودیا پیٹھ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی پھر بنارس ہندو یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشن کیا جس کے بعد میدان صحافت میں قدم رکھا۔
رضوانہ تبسم کی عمر تقریبا 27 سے 28 برس کی تھی انہوں نے نوجوانی کی عمر میں ایسا قدم کیوں اٹھایا یہ تفتیش کے بعد ہی معلوم ہوگا لیکن ان کے اس قدم سے پورا علاقے میں غم کی لہر ہے۔