مرادآباد: ریاست اترپردیش کے مرادآباد کے ہنرمند کاریگر اور دستکار سالوں سے اپنے ہنر کا جلوہ بکھیر رہے ہیں۔ اور اپنے ہاتھوں کے جادو سے پیتل کے برتنوں پر نقاشی کرتے چلے آ رہے ہیں۔ عام طور پر کاریگری کرنے والے یہ دستکار مرد حضرات ہوتے تھے مگر گزشتہ کئی سالوں سے اب خواتین بھی اس کام کو کرنے لگی ہیں۔ ان کی مجبوری کہیں یا پھر شہر میں کام کی بھرمار اب خواتین بھی گلی محلوں میں پیتل کے برتنوں پر نقاشی کر رہی ہیں اور گزر بسر کرنے کے لیے اپنے مردوں کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر چل رہی ہیں۔
کہتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں سے تو شروعات ہوتی ہی ہے اور ایسا ہی ان خواتین کے ساتھ ہوا جب ان کو شہر کے مشہور دستکار دلشاد حسین جی کا ساتھ ملا اور انہوں نے ان خواتین کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ہر ممکن مدد بھی کی۔ خواتین کو نقاشی کے کام میں لانے والے دلشاد حسین جن کو حکومت کی جانب سے پدم شری کے اعزاز سے نوازا گیا ہے وہ ان خواتین کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور ان کو ہر طرح کی مدد فراہم کرتے ہیں اس کے ساتھ ہی وہ حکومت کے ذریعے شروع کی گئی او ڈی او پی اسکیم کے لیے بھی حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
دلشاد حسین نے بتایا کہ شہر میں کئی خواتین اس کام کو سیکھ رہی ہیں۔ انہوں نے خود بھی کئی خواتین کو یہ کام سکھایا ہے اور اب یہ خواتین اپنی محنت اور لگن سے اپنا گزر بسر کر رہی ہیں۔خود کام سیکھ کر دوسروں کو نقاشی سکھانے والی نسرین کے مطابق ان کے شوہر کا انتقال ہو چکا ہے۔ اپنے بچوں کو پالنے کے لیے انہوں نے اس کام کو سیکھا اور اب وہ دوسری خواتین کو بھی یہ کام سکھا کر انہیں خود مختار بنا رہی ہیں۔ وہ حکومت کے ذریعہ چلائی جا رہی اسکیم کا بھی ذکر کرتی ہیں جس کے ذریعے ان کو ٹریننگ دی گئی اور ایک ٹول کٹ دی گئی جس کا استعمال کر کے انہوں نے اس کام کو کرنا شروع کیا۔
مزید پڑھیں: تانبے اور پیتل کے برتن کا استعمال عام ہو رہا ہے
انہوں نے کہا کہ بھلے ہی یہ کام مرد حضرات کرتے ہیں لیکن خواتین کو بھی کہیں کوئی پریشانی نہیں ہوتی ہے اور وہ بخوبی اس کام کو کر رہی ہیں۔ تو وہیں نقّاشی کا ہی کام کرنے والی شاہ جہاں بتاتی ہیں کہ وہ اپنے شوہر کا ہاتھ بٹانے کے لیے یہ کام کرتی ہیں۔ شوہر کی کمائی سے اخراجات پورے نہیں ہو پاتے تھے لہذا انہوں نے اس کام کو سیکھا اور اب وہ بھی اپنے شوہر کے ساتھ یہ کام کرتی ہیں اور 200 روپے یومیہ کما لیتی ہیں۔ ان کے مطابق کام میں کسی طرح کی کوئی برائی نہیں ہے اور وہ اس کام کو پوری لگن سے کرتی ہیں۔
نقّاشی کا کام سیکھنے والی فرح بتاتی ہیں کہ وہ اپنے گھر گرہستی کو چلانے کے لیے اس کام کو سیکھ رہی ہیں۔ ان کے شوہر بھی پیتل کی ڈھلائی کی مزدوری کرتے ہیں لیکن وہ ناکافی ہے اس لیے وہ اس کام کو سیکھ رہی ہیں تاکہ وہ اپنے شوہر کا ہاتھ بٹا سکیں۔ تقریبا وہ ایک سال سے اس کام کو سیکھ رہی ہیں۔