حیدرآباد کے بعد مہاراشٹر اور بہار میں سیاسی کامیابی حاصل کرنے کے بعد مجلس اتحاد المسلمین All India Majlis-e-Ittehadul Muslimeen اتر پردیش میں اپنا قدم جمانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔
اتر پردیش اسمبلی انتخابات Uttar Pradesh Assembly Election میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین صوبے میں اپنی سیاسی زمین تلاش رہی ہے۔
گذشتہ ماہ میرٹھ میں عوامی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مجلس کے سربراہ اسد الدین اویسی نے خاص طور پر مسلمانوں کو متوجہ کرنے کی کوشش کی اور مسلم ووٹرز سے متحد ہو کر مسلم قیادت کے لیے ووٹ کرنے کی اپیل بھی کی۔
میرٹھ میں منعقدہ عوامی ریلی کے ذریعے اسد الدین اویسی نے مسلمانوں کو جو پیغام دینے کی کوشش کی اُس کا ایک طبقے اور خاص طور پر نوجوانوں میں اثر نظر آ رہا ہے۔
وہیں مسلم ووٹرز کا بڑا طبقہ اویسی کی باتوں اور ارادوں سے تو متفق نظر آتا ہے لیکن دوسری سیاسی جماعتوں کی نظر میں اویسی اتر پردیش میں مسلمانوں کو صرف نقصان پہنچانے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔
میرٹھ میں سماج وادی پارٹی کے رکن اسمبلی کا کہنا ہے کہ اس بار اتر پردیش میں بی جے پی کو شکست دینے کے لیے سبھی مذاہب کے لوگ ایک ساتھ مل کر اقتدار بدلنے جا رہے ہیں، صرف مسلمانوں کے نام پر ووٹ مانگ کر اویسی نفرت پھیلا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس مرتبی اویسی کا مسلم والا فارمولا کام نہیں آئے گا۔
وہیں بعض دانشوروں کا ماننا ہے کہ اویسی اپنی ریلیوں میں ہجوم تو اکٹھا کر سکتے ہیں لیکن ان کو یہاں کے عوام کا ووٹ نہیں ملے گا۔
ملک کی زیادہ آبادی والے صوبہ اتر پردیش میں ذات برادری اور علاقائیت کی سیاست رہی ہے۔ کانگریس کے بعد سماجوادی بی ایس پی اور بی جے پی نے ووٹ بینک کی سیاست کا بھرپور فائدہ حاصل کیا۔
مذہب اور طبقات کے نام پر جہاں ووٹ بینک کی سیاست نے اتر پردیش جیسے صوبے میں ایک الگ طرح کا ماحول پیدا کیا، وہیں روایتی سیاست سے الگ پیس پارٹی اور اسی طرح کی دوسری سیاسی جماعتوں کے لیے ماحول بھی تیار کیا۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین بھی اسی کڑی کی ایک سیاسی جماعت ہے جو پسماندہ طبقے اور خاص طور پر اقلیتوں کے حق کی بات کرکے صوبے کی دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں خود کو ایک متبادل کے طور پر پیش کر رہی ہے۔
اب دیکھنا ہوگا کہ 2022 میں مجلس اتحاد المسلمین یوپی کے سیاسی میدان میں خود کو کس طرح ثابت کر پاتی ہے۔