اتر پردیش کے شہر لکھنو میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج میں شامل مظاہرین پر پولیس کاروائی میں اچانک تیزی آ گئی ہے۔ اسی کڑی میں سماجی کارکن زینب صدیقی کو گرفتار کرنے گئی پولیس پر الزام ہے کہ اس نے اہل خانہ کے ساتھ مار پیٹ کی ہے۔
پولیس کی اس کاروائی کے بعد سوال بھی اٹھائے جارہے ہیں۔ ای ٹی وی بھارت کے نمائندے سے خصوصی بات چیت کے دوران زینب صدیقی نے بتایا کہ شام پانچ بجے کے بعد پولیس ہمارے گھر آئی لیکن اس وقت میں دفتر میں تھی۔
انہوں نے بتایا 'دوبارہ آٹھ سے دس لوگ آئے جو پولیس کی وردی میں ملبوس نہیں تھے۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ آر ایس ایس سے منسلک تھے یا بی جے پی کے کارکن تھے، لیکن انہوں نے ہمارے ساتھ زیادتی کی ساری حدیں پار کردیں'۔
زینب نے کہا 'مغرب کی نماز پڑھ کر میرے والد آ رہے تھے، جنہیں زبردستی پکڑ کر گاڑی میں بٹھانے کی کوشش کی گئی لیکن تبھی چیخ و پکار سن کر محلے والے بھی آ گئے۔ اسی دوران حسن گنج سے مزید پولیس فورس آ گئی اور انہوں نے لاٹھی چارج کردیا'۔
انہوں نے کہا 'لاٹھی چارج میں میرے ماں باپ اور بھائی بہن کو کافی چوٹیں آئیں لیکن پولیس یہیں نہیں ٹھہری بلکہ والد صاحب اور میرے نابالغ بھائی کو تھانہ لے گئی، لیکن ہمیں نہیں معلوم کہ دونوں کو کہاں رکھا گیا تھا؟ صبح بھائی کو پولیس نے چھوڑ دیا لیکن والد صاحب کی کوئی جانکاری نہیں ہے'۔
زینب نے بات چیت کے دوران کہا "ہم مجرم نہیں ہیں۔ ہمارے ساتھ دہشت گردوں کی طرح سلوک کیا جا رہا ہے۔ پولیس اہلکاروں نے گالیاں بھی دیں اور چھوٹی بہنوں پر تشدد بھی کیا۔ موجودہ حکومت مذہب کے نام پر یکطرفہ کارروائی کر رہی ہے'۔
یہ بھی پڑھیے
بہار انتخابات: آخری مرحلے کی 78 سیٹوں کی تفصیلات
زینب سماجی کارکن ہیں، وہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرے میں شرکت کرتی رہیں لیکن ان کے خلاف کسی بھی تھانہ میں کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہے۔ باوجود اس کے ان پر اور ان کے اہل خانہ کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ زینب نے بتایا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ حسن گنج تھانہ کے سبھی پولیس اہلکاروں کو برخاست کیا جائے۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر پولیس ایف آئی آر درج کیے بغیر یا بغیر شکایت کے کسی پر تشدد کیسے کر سکتی ہے؟ اس کاروائی میں ایک بھی خاتون پولیس کانسٹیبل نہیں تھی جبکہ زینب کے گھر میں کئی خواتین و ان کی چھوٹی بہنوں کے ساتھ بھی مار پیٹ کی گئی۔