ETV Bharat / state

اردو زبان کی ترویج و ارتقاء میں بی ایچ یو، اے ایم یو کا کردار

رواں برس علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام کے 100 برس مکمل ہو چکے ہیں، جس نے مختلف علمی و ادبی ترقی میں قائدانہ کردار ادا کیا ہے وہیں بنارس ہندو یونیورسٹی کے قیام کو بھی 104 برس ہوگئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں ہی عالمی شہرت یافتہ ادارے میں ابتدائی دور سے ہی اردو زبان کے شعبہ کا قیام رہا اور یہاں سے اردو کی شمع جلائی جاتی رہی اور آج بھی یہاں سے اردو کی آبیاری ہو رہی ہے۔

author img

By

Published : Dec 15, 2020, 2:30 PM IST

Updated : Dec 15, 2020, 3:23 PM IST

image
image

ای ٹی وی بھارت نے دونوں ادارے کی اردو زبان کے فروغ و ارتقاء میں مشترکہ طور پر کیا کردار رہا؟ اس پر بنارس ہندو یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے صدر و ممتاز اردو داں پروفیسر آفتاب احمد آفاقی سے خاص بات چیت کی۔

پروفیسر آفتاب احمد افاقی نے کہا کہ بنارس ہندو یونیورسٹی (بی ایچ یو) کا قیام سنہ 1916ء میں عمل میں آیا تھا اور سنہ 1920 میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کو باضابطہ یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہوا جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے نام سے معروف ہوا۔

دونوں یونیورسٹیز کے قیام میں چار برس کا فرق ہے یعنی چار سال بعد مسلم یونیورسٹی کا وجود عمل میں آیا ہے۔ ملک کے لیے یہ دونوں یونیورسٹیز لیڈنگ پوزیشن میں رہیں۔ یہ دونوں ادارے ابتدائی ایام سے ہی اردو زبان کی ترویج و ارتقاء میں بہت ہی فعال رہے ہیں۔

انہوں کہا کہ یہاں علم و ادب پر کام کرنے والی بڑی بڑی شخصیات نے تحقیقی، تنقیدی، ادبی اور تدریسی شعبے میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں جس سے ان دونوں اداروں کا نام پوری دنیا میں پھیلا ہے۔

بنارس ہندو یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے صدر پروفیسر آفتاب احمد آفاقی سے خاص بات چیت

پروفیسر آفتاب احمد آفاقی نے کہا کہ فائز بنارسی سے لے کر مولوی مہیش پرشاد، حکم چند نیئر نے تحقیقی میدان میں جو کارہائے نمایاں انجام دیا ہے وہ تاریخی ہے۔ اسی طرح سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی کئی بڑی شخصیات رونما ہوئیں مثلاً تنقید کے میدان میں آل احمد سرور، وحید اختر، خلیل الرحمٰن اعظمی، رشید احمد صدیقی، قاضی افضال، قاضی جمال، پروفیسر ابوالکلام قاسمی جیسی اعلی مرتب شخصیات نے اردو ادب میں ایک امتیاز قائم کیا اور اردو ادب کے فروغ میں غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ عملی طور پر ہم اے ایم یو سے بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ہمارے یہاں مختلف لیکچرز ہوئے اور ہم نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اساتذہ کو مدعو کیا۔ بنارس ہندو یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے کئی لوگوں نے مسلم یونیورسٹی میں ملازمت حاصل کی۔ مثلاً اس شعبے سے بھی متعدد اساتذہ وہاں گئے اور ملازمت حاصل کیں جہاں پر پروفیسر ظفر احمد صدیقی نے بنارس ہندو یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی اور مسلم یونیورسٹی میں لیکچرر کے بعد پروفیسر ہوتئے۔ ڈپارٹمنٹ چیئرمین ہو کر کچھ ماہ قبل ہی سبکدوش ہوئے۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ اے ایم یو کی جو علمی و ادبی روایت رہی ہے اس میں ہمارا شعبہ کسی نہ کسی طرح سے شامل رہا ہے اور اسی طرح سے ہمارے شعبہ کے فروغ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اساتذہ و محققین اور دوسرے لوگوں نے بھی ہمیشہ دلچسپی لی ہے۔ دونوں اداروں کے مابین ایک صحت مند اور خوشگوار فضأ قائم ہے جو اردو زبان کی ترویج و ترقی کے لیے بہت معاون ثابت ہوئی ہے۔

انہوں نے مزید کیا کہ یونیورسٹی کے بانی پنڈت مدن موہن مالویہ نے اپنے زمانے میں بی ایچ یو کی ہاکی ٹیم اے ایم یو میں کھیلنے گئے تھے جہاں پر ان کا پرجوش اور شاندار طریقے سے استقبال کیا گیا تھا۔

بنارس ہندو یونیورسٹی کے رکن مہاراجہ بنارس نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تعمیر و ترقی میں اس زمانے میں تقریباً 20 ہزار روپیے کا تعاون کیا تھا، خود مدن موہن مالویہ نے سر سید کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔

پروفیسر آفتاب احمد افاقی نے کہا کہ عوامی سطح پر یہ مفروضہ عام ہے کہ مسلم یونیورسٹی کا مطلب ہے مسلم ادارہ، اردو کا گہوارہ اور ہندو یونیورسٹی کا مطلب ہے ہندو ادارہ جو سراسر بے بنیاد اور غلط ہے۔

انہوں نے کہا کہ مرحوم حنیف نقوی کوئی معمولی آدمی نہیں تھے۔ ان کے قد کا آج تک کوئی محقق وہاں پیدا نہیں ہوا۔ غالب کے خطوط کو فائینڈ آوٹ کرنے کا سہرا بنارس ہندو یونیورسٹی کو حاصل ہے لیکن جو مقبولیت بنارس ہندو یونیورسٹی کے شعبہ اردو کو حاصل ہونی چاہیے وہ نہیں ہوئی، اس کی مختلف وجوہات ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے اردو دنیا کو نامور شخصیات دیئے ہیں جنہوں نے اردو پر بہت کام کیا اور آنے والی نسلیں اس سے فائدہ حاصل کریں گی۔

ای ٹی وی بھارت نے دونوں ادارے کی اردو زبان کے فروغ و ارتقاء میں مشترکہ طور پر کیا کردار رہا؟ اس پر بنارس ہندو یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے صدر و ممتاز اردو داں پروفیسر آفتاب احمد آفاقی سے خاص بات چیت کی۔

پروفیسر آفتاب احمد افاقی نے کہا کہ بنارس ہندو یونیورسٹی (بی ایچ یو) کا قیام سنہ 1916ء میں عمل میں آیا تھا اور سنہ 1920 میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کو باضابطہ یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہوا جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے نام سے معروف ہوا۔

دونوں یونیورسٹیز کے قیام میں چار برس کا فرق ہے یعنی چار سال بعد مسلم یونیورسٹی کا وجود عمل میں آیا ہے۔ ملک کے لیے یہ دونوں یونیورسٹیز لیڈنگ پوزیشن میں رہیں۔ یہ دونوں ادارے ابتدائی ایام سے ہی اردو زبان کی ترویج و ارتقاء میں بہت ہی فعال رہے ہیں۔

انہوں کہا کہ یہاں علم و ادب پر کام کرنے والی بڑی بڑی شخصیات نے تحقیقی، تنقیدی، ادبی اور تدریسی شعبے میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں جس سے ان دونوں اداروں کا نام پوری دنیا میں پھیلا ہے۔

بنارس ہندو یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے صدر پروفیسر آفتاب احمد آفاقی سے خاص بات چیت

پروفیسر آفتاب احمد آفاقی نے کہا کہ فائز بنارسی سے لے کر مولوی مہیش پرشاد، حکم چند نیئر نے تحقیقی میدان میں جو کارہائے نمایاں انجام دیا ہے وہ تاریخی ہے۔ اسی طرح سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی کئی بڑی شخصیات رونما ہوئیں مثلاً تنقید کے میدان میں آل احمد سرور، وحید اختر، خلیل الرحمٰن اعظمی، رشید احمد صدیقی، قاضی افضال، قاضی جمال، پروفیسر ابوالکلام قاسمی جیسی اعلی مرتب شخصیات نے اردو ادب میں ایک امتیاز قائم کیا اور اردو ادب کے فروغ میں غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ عملی طور پر ہم اے ایم یو سے بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ہمارے یہاں مختلف لیکچرز ہوئے اور ہم نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اساتذہ کو مدعو کیا۔ بنارس ہندو یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے کئی لوگوں نے مسلم یونیورسٹی میں ملازمت حاصل کی۔ مثلاً اس شعبے سے بھی متعدد اساتذہ وہاں گئے اور ملازمت حاصل کیں جہاں پر پروفیسر ظفر احمد صدیقی نے بنارس ہندو یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی اور مسلم یونیورسٹی میں لیکچرر کے بعد پروفیسر ہوتئے۔ ڈپارٹمنٹ چیئرمین ہو کر کچھ ماہ قبل ہی سبکدوش ہوئے۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ اے ایم یو کی جو علمی و ادبی روایت رہی ہے اس میں ہمارا شعبہ کسی نہ کسی طرح سے شامل رہا ہے اور اسی طرح سے ہمارے شعبہ کے فروغ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اساتذہ و محققین اور دوسرے لوگوں نے بھی ہمیشہ دلچسپی لی ہے۔ دونوں اداروں کے مابین ایک صحت مند اور خوشگوار فضأ قائم ہے جو اردو زبان کی ترویج و ترقی کے لیے بہت معاون ثابت ہوئی ہے۔

انہوں نے مزید کیا کہ یونیورسٹی کے بانی پنڈت مدن موہن مالویہ نے اپنے زمانے میں بی ایچ یو کی ہاکی ٹیم اے ایم یو میں کھیلنے گئے تھے جہاں پر ان کا پرجوش اور شاندار طریقے سے استقبال کیا گیا تھا۔

بنارس ہندو یونیورسٹی کے رکن مہاراجہ بنارس نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تعمیر و ترقی میں اس زمانے میں تقریباً 20 ہزار روپیے کا تعاون کیا تھا، خود مدن موہن مالویہ نے سر سید کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔

پروفیسر آفتاب احمد افاقی نے کہا کہ عوامی سطح پر یہ مفروضہ عام ہے کہ مسلم یونیورسٹی کا مطلب ہے مسلم ادارہ، اردو کا گہوارہ اور ہندو یونیورسٹی کا مطلب ہے ہندو ادارہ جو سراسر بے بنیاد اور غلط ہے۔

انہوں نے کہا کہ مرحوم حنیف نقوی کوئی معمولی آدمی نہیں تھے۔ ان کے قد کا آج تک کوئی محقق وہاں پیدا نہیں ہوا۔ غالب کے خطوط کو فائینڈ آوٹ کرنے کا سہرا بنارس ہندو یونیورسٹی کو حاصل ہے لیکن جو مقبولیت بنارس ہندو یونیورسٹی کے شعبہ اردو کو حاصل ہونی چاہیے وہ نہیں ہوئی، اس کی مختلف وجوہات ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے اردو دنیا کو نامور شخصیات دیئے ہیں جنہوں نے اردو پر بہت کام کیا اور آنے والی نسلیں اس سے فائدہ حاصل کریں گی۔

Last Updated : Dec 15, 2020, 3:23 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.