لکھنؤ کے قاضی شہر مفتی ابوالعرفان فرنگی نے بتایا کہ اس سلسلے میں فقہاء کرام جن کا حوالہ بھی دیا گیا ہے، ان کا ماننا ہے کہ نماز عیدالفطر کے لیے وہی شرطیں ہیں جو نماز جمعہ کے لیے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ جمعہ میں خطبہ پہلے ہوتا ہے اور عید الفطر میں نماز کے بعد۔
نماز عیدالفطر میں چھ تکبیریں زیادہ ہیں جب کہ جمعہ کی نماز میں زائد تکبیریں نہیں ہوتیں۔ جمعہ کی نماز مسجد میں ادا کرنا چاہیے اور نماز عید الفطر آبادی سے باہر میدان میں یعنی عید گاہ میں ہوتی ہے۔
اگر کسی بھی مجبوری سے نماز جمعہ فوت ہوجائے تو آپ ظہر کی نماز، جمعہ کی جگہ پر اپنے گھر میں اکیلے یا جماعت کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں لیکن اگر نماز عید الفطر امام کے ساتھ عیدگاہ میں نہیں پڑھ سکے تو اس کے بدلے میں کوئی حکم نہیں ہے۔
نماز جمعہ کے لیے قرآنی حکم ہے لیکن نماز عیدالفطر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مواظبت کی وجہ سے سنت موکدہ اور واجبات میں سے ہے۔
( امام ابو حنیفہ کے نزدیک نماز عید الفطر واجب ہے اور صلی اللہ علیہ وسلم کی مواظبت کی وجہ سے مشائخ کے نزدیک سنت ہے۔ (رسائل الارکان ملا بحرالعلوم فرنگی محلی )
نماز عید کے وجوب کے لیے اور ادائیگی کے لیے وہی شرطیں ہیں جو جمعہ کے لیے ہیں سوائے خطبے کے۔ وہ جمعہ سے پہلے ہے اور نماز عید الفطر میں نماز کے بعد خطبہ ہوتا ہے (رسائل الارکان ملا بحرالعلوم فرنگی محلی)۔
نماز عید الفطر واجب ہے جبکہ نماز جمعہ واجب ہے (ہدایہ کفایہ)۔
شرح وقایہ میں ہے کہ اگر کسی نے امام کے ساتھ عید گاہ میں نماز عید الفطر نہیں پڑھی تو اس کی قضا نہیں پڑھے گا۔ اس لیے کہ نماز عید الفطر میں جماعت اور حضوری سلطان کی بھی شرط ہے اور جب شرط پوری نہیں ہوگی تو قضاء بھی نہیں ہوگی۔
رسائل الارکان میں ملا بحرالعلوم فرنگی محلی نے لکھا ہے کہ نماز عید الفطر کی قضا نہیں ہے۔
در مختار میں ہے کہ اور نماز عید الفطر تنہا نہ پڑھے۔
شامی میں ہے کہ نماز عید الفطر عید گاہ میں فوت ہونے پر گھر پر چار رکعت چاشت کی پڑھے نہ کہ عیدالفطر کی قضا اور نہ اس میں زائد تکبیر کہیں گے۔
اوپر کے احکام کے پیش نظر عید الفطر کی نماز عید گاہ میں ادا نہ کرنے پر اپنے اپنے گھر پر چار رکعت صلوٰۃ ضحا (نماز اے چاشت) ایک سلام سے پڑھی جائے گی۔