علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد کا مشن تھا، جو تعلیم کی شمع علی گڑھ میں جلائی وہ پورے بھارت اور دنیا میں پھیلے، سر سید کا کہنا تھا کہ تعلیم سستی اور آسان ہو اور ہر کسی کو تعلیم ملے۔
بین الاقوامی کانفرنس میں پروفیسر شکیل احمد صمدانی، ڈین قانون فیکلٹی، مقررین میں انجینئر ندیم اے ترین، ایس گرو دیو سنگھ (ریٹائرڈ آئی اے ایس)، پروفیسر شافع قدوائی ( چیئرمین شعبہ ترسیل عامہ) اور ڈاکٹر لطیفہ بن عارفہ ربائی کے ساتھ خاصی تعداد میں لوگوں نے بھی شرکت کی۔
پروفیسر شکیل احمد صمدانی نے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ ندیم ترین صاحب نے اپنی تقریر بہت شاندار کی اور انہوں نے کہا کہ آپ لوگ سرسید کے خیالات کو عمل میں لائیں اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرے۔
اس میں ظہیر قاضی صاحب نے بھی شرکت کی، جن کو 17 تاریخ کو یونیورسٹی بہت بڑا انعام دینے جا رہی ہے، انجمن اسلام کے صدر ہیں۔ انہوں نے پیغام دیا کہ اردو کو بچانے کے لیے ہمیں کام کرنا چاہیے اور اردو کے لیے انجمن اسلام کیا کیا کام کر رہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا۔
پروفیسر شکیل صمدانی نے مزید بتایا کہ اس کانفرنس میں بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے دیکھا، تقریباً پندرہ ممالک کے لوگوں میں شامل تھے۔ یہ سمینار بہت کامیاب ہوا۔
ہم لوگوں نے یہ عہد کیا ہے کہ ہم سر سید کے پیغام کو گاؤں گاؤں پہنچانے کی کوشش کریں گے، ان کی تعلیمات کو عام کریں گے، ان جیسا بننے کی کوشش کریں گے، نفرت کو ختم کریں گے، ہندو مسلم بھائی چارے کو بڑھائیں گے۔
لاء سوسائٹی کے سیکریٹری عبداللہ صمدانی نے بتایا کہ اے ایم یو اپنے سو سال مکمل کرنے جا رہی ہے اور ابھی کچھ دنوں میں یوم سرسید آنے والا ہے تو لاء سوسائٹی نے یہ سوچا ہم لوگ یوم سرسید کی شروعات کانفرنس سے کریں۔
اس کانفرنس کا مقصد یہی تھا کہ سرسید کا جو مشن تھا۔ اس کانفرنس میں شامل ہونے کے بعد معلوم چلا جتنے بھی مقررین تھے۔
مزید پڑھیں:
سہارنپور: سرعام ڈاکٹر کا گولی مار کر قتل
انہوں نے کہا سر سید کا مشن یہی تھا کہ جو تعلیم کی شمع انہوں نے علی گڑھ میں جلائی وہ پورے بھارت اور دنیا میں پھیلے ان کا کہنا تھا کہ تعلیم بہت سستی ہو آسان ہو اور ہر کسی کو تعلیم ملے، سرسید بہت سیکولر انسان تھے۔