ETV Bharat / state

" ٹرانس جنڈر بل" قابل قبول نہیں: خواجہ سرا گوتم

سماج میں خواجہ سراؤں کو کئی طرح کی پریشانیوں سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ نہ پریوار اپناتا ہے اور نہ ہی سماج۔ اسکے بعد انکی تاریک زندگی کا سفر شروع ہوتا ہے جو مرتے دم تک جاری رہتا ہے۔

" ٹرانس جنڈر بل" قابل قبول نہیں: خواجہ سرا گوتم
" ٹرانس جنڈر بل" قابل قبول نہیں: خواجہ سرا گوتم
author img

By

Published : Nov 28, 2019, 9:45 PM IST

ٹرانس جینڈر کو سماج کے مین اسٹریم میں لانے کے لئے راجیہ سبھا میں ٹرانس جینڈر بل (حقوق کا تحفظ) 2019 کو منظوری مل گئی ہے۔

ایک طرف جہاں حکومت اس بل کے ذریعے خواجہ سراؤں کے تحفظ و ترقی کی بات کر رہی ہے اس کے برعکس خواجہ سراؤں کا کہنا ہے کہ یہ بل سطحی اور کھوکھلا ہے۔

ای ٹی وی بھارت نے اس بل پر خواجہ سرا جتن نے جو پوسٹ گریجویٹ ہیں اور گوتم نے کہا کہ یہ بل ہمیں کسی طرح کا تحفظ نہیں دیتا اوپر سے بہتر لگتا ہے لیکن اگر آپ باریکی سے معائنہ کریں گے تو یہ بالکل ہمارے لئے کسی کام کا نہیں ہے۔

" ٹرانس جنڈر بل" قابل قبول نہیں: خواجہ سرا گوتم
انہوں نے کہا کہ اس بل میں کئی خامیاں ہیں۔# اس بل میں صاف طور پر بتایا گیا ہے کہ مرد یا عورت جو اپنے کو ٹرانس جینڈر مانتے ہیں، انہیں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے سامنے ایک حلف نامہ دینا ہوگا جس کے بعد ہی وہ سرجری کرانے کی مانگ کر پائیں گے۔ یہ سپریم کورٹ کے 'نالسا' فیصلے کے خلاف ہے۔# عورت کے ساتھ جنسی جرائم پر 7 سال سے لیکر اس سے زیادہ سزا ہو سکتی ہے لیکن ٹرانسجینڈر کے ساتھ ریپ پر چھہ مہینے سے لے کر دو سال کی ہی سزا ہو سکتی ہے۔# اس بل میں ایجوکیشن، ہیلتھ، روزگار میں ریزرویشن دینے نے سے منع کرتا ہے۔# یہ بل ٹرانس جنڈر لوگوں کو اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ لوگ اسی پریوار کے ساتھ رہے جہاں ان کی پیدائش ہوئی۔ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران جتن اور گوتم نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ بل ہمارے لیے پاس کیا گیا ہے لیکن ہم سے اس کے بارے میں کوئی رائے مشورہ نہیں لیا گیا۔جو ہمیں پریشانی ہوتی ہے ان باتوں پر غور و فکر نہیں کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ایک بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو ماں باپ خوشیاں مناتے ہیں لیکن ہمارے جیسا کوئی پیدا ہوتا ہے تو ہر ماں باپ شرم کی وجہ سے کسی سے کچھ نہیں بتاتے۔لہٰذا سب سے زیادہ جسمانی اور ذہنی زیادتیاں ہمارے ساتھ پریوار کے لوگ ہی کرتے ہیں۔ اگر پروار ہمیں اپنا بھی لیتا ہے تو سماج جینے نہیں دیتا۔گوتم نے کہا کہ سرجری کرانا ہر کسی کے لئے ممکن نہیں۔ اس کے لئے ہمیں ایک حلف نامہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو دینا ہوگا، جو سی ایم او کی رپورٹ پر مبنی ہوگا۔اتنا سب ہونے کے بعد ہی رپورٹ صحیح ہونے پر سرجری کی اجازت ملے گی ورنہ نہیں۔ پریشانی یہ ہے کہ اس وقت تک ہمارے آدھار کارڈ میں یا دیگر شناخت کارڈ میں 'ٹرانس جنڈر' ہی لکھا رہے گا، جو ہمارے لیے بڑی شرم کی بات ہوتی ہے۔بات چیت کے دوران انہوں نے کہا کہ اس بل کو ہم نہیں مانتے بلکہ اس میں کئی طرح کی ترمیم ہونا ضروری ہے۔اس کے بعد ہی ہمیں تمام حقوق مل سکتے ہیں لیکن اس کے لیے ہمارے سماج کے لوگوں سے بات کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ ہمارے لیے قانون بن رہا ہے۔

ٹرانس جینڈر کو سماج کے مین اسٹریم میں لانے کے لئے راجیہ سبھا میں ٹرانس جینڈر بل (حقوق کا تحفظ) 2019 کو منظوری مل گئی ہے۔

ایک طرف جہاں حکومت اس بل کے ذریعے خواجہ سراؤں کے تحفظ و ترقی کی بات کر رہی ہے اس کے برعکس خواجہ سراؤں کا کہنا ہے کہ یہ بل سطحی اور کھوکھلا ہے۔

ای ٹی وی بھارت نے اس بل پر خواجہ سرا جتن نے جو پوسٹ گریجویٹ ہیں اور گوتم نے کہا کہ یہ بل ہمیں کسی طرح کا تحفظ نہیں دیتا اوپر سے بہتر لگتا ہے لیکن اگر آپ باریکی سے معائنہ کریں گے تو یہ بالکل ہمارے لئے کسی کام کا نہیں ہے۔

" ٹرانس جنڈر بل" قابل قبول نہیں: خواجہ سرا گوتم
انہوں نے کہا کہ اس بل میں کئی خامیاں ہیں۔# اس بل میں صاف طور پر بتایا گیا ہے کہ مرد یا عورت جو اپنے کو ٹرانس جینڈر مانتے ہیں، انہیں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے سامنے ایک حلف نامہ دینا ہوگا جس کے بعد ہی وہ سرجری کرانے کی مانگ کر پائیں گے۔ یہ سپریم کورٹ کے 'نالسا' فیصلے کے خلاف ہے۔# عورت کے ساتھ جنسی جرائم پر 7 سال سے لیکر اس سے زیادہ سزا ہو سکتی ہے لیکن ٹرانسجینڈر کے ساتھ ریپ پر چھہ مہینے سے لے کر دو سال کی ہی سزا ہو سکتی ہے۔# اس بل میں ایجوکیشن، ہیلتھ، روزگار میں ریزرویشن دینے نے سے منع کرتا ہے۔# یہ بل ٹرانس جنڈر لوگوں کو اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ لوگ اسی پریوار کے ساتھ رہے جہاں ان کی پیدائش ہوئی۔ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران جتن اور گوتم نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ بل ہمارے لیے پاس کیا گیا ہے لیکن ہم سے اس کے بارے میں کوئی رائے مشورہ نہیں لیا گیا۔جو ہمیں پریشانی ہوتی ہے ان باتوں پر غور و فکر نہیں کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ایک بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو ماں باپ خوشیاں مناتے ہیں لیکن ہمارے جیسا کوئی پیدا ہوتا ہے تو ہر ماں باپ شرم کی وجہ سے کسی سے کچھ نہیں بتاتے۔لہٰذا سب سے زیادہ جسمانی اور ذہنی زیادتیاں ہمارے ساتھ پریوار کے لوگ ہی کرتے ہیں۔ اگر پروار ہمیں اپنا بھی لیتا ہے تو سماج جینے نہیں دیتا۔گوتم نے کہا کہ سرجری کرانا ہر کسی کے لئے ممکن نہیں۔ اس کے لئے ہمیں ایک حلف نامہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو دینا ہوگا، جو سی ایم او کی رپورٹ پر مبنی ہوگا۔اتنا سب ہونے کے بعد ہی رپورٹ صحیح ہونے پر سرجری کی اجازت ملے گی ورنہ نہیں۔ پریشانی یہ ہے کہ اس وقت تک ہمارے آدھار کارڈ میں یا دیگر شناخت کارڈ میں 'ٹرانس جنڈر' ہی لکھا رہے گا، جو ہمارے لیے بڑی شرم کی بات ہوتی ہے۔بات چیت کے دوران انہوں نے کہا کہ اس بل کو ہم نہیں مانتے بلکہ اس میں کئی طرح کی ترمیم ہونا ضروری ہے۔اس کے بعد ہی ہمیں تمام حقوق مل سکتے ہیں لیکن اس کے لیے ہمارے سماج کے لوگوں سے بات کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ ہمارے لیے قانون بن رہا ہے۔
Intro:سماج میں خواجہ سراؤں کو کئی طرح کی پریشانیوں سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ نہ پریوار اپناتا ہے اور نہ ہی سماج۔ اسکے بعد انکی تاریک زندگی کا سفر شروع ہوتا ہے جو مرنے تک جاری رہتا ہے۔


Body:ٹرانس جینڈر کو سماج کے مین اسٹریم میں لانے کے لئے راجیہ سبھا میں ٹرانس جینڈر بل (حقوق کا تحفظ) 2019 کو منظوری مل گئی ہے۔

ایک طرف جہاں حکومت اس بل کے ذریعے خواجہ سراؤں کے تحفظ و ترقی کی بات کر رہی ہے اس کے برعکس خواجہ سراؤں کا کہنا ہے کہ یہ بل سطحی اور کھوکھلا ہے۔

ای ٹی وی بھارت نے اس بل پر خواجہ سرا جتن نے جو پوسٹ گریجویٹ ہیں اور گوتم نے کہا کہ یہ بل ہمیں کسی طرح کا تحفظ نہیں دیتا اوپر سے بہتر لگتا ہے لیکن اگر آپ باریکی سے معائنہ کریں گے تو یہ بالکل ہمارے لئے کسی کام کا نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس بل میں کئی خامیاں ہیں۔

# اس بل میں صاف طور پر بتایا گیا ہے کہ مرد یا عورت جو اپنے کو ٹرانس جینڈر مانتے ہیں، انہیں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے سامنے ایک حلف نامہ دینا ہوگا جس کے بعد ہی وہ سرجری کرانے کی مانگ کر پائیں گے۔ یہ سپریم کورٹ کے 'نالسا' فیصلے کے خلاف ہے۔

# عورت کے ساتھ جنسی جرائم پر 7 سال سے لیکر اس سے زیادہ سزا ہو سکتی ہے لیکن ٹرانسجینڈر کے ساتھ ریپ پر چھہ مہینے سے لے کر دو سال کی ہی سزا ہو سکتی ہے۔

# اس بل میں ایجوکیشن، ہیلتھ، روزگار میں ریزرویشن دینے نے سے منع کرتا ہے۔

# یہ بل ٹرانس جنڈر لوگوں کو اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ لوگ اسی پریوار کے ساتھ رہے جہاں ان کی پیدائش ہوئی۔

ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران جتن اور گوتم نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ بل ہمارے لیے پاس کیا گیا ہے لیکن ہم سے اس کے بارے میں کوئی رائے مشورہ نہیں لیا گیا۔

جو ہمیں پریشانی ہوتی ہے ان باتوں پر غور و فکر نہیں کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ایک بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو ماں باپ خوشیاں مناتے ہیں لیکن ہمارے جیسا کوئی پیدا ہوتا ہے تو ہر ماں باپ شرم کی وجہ سے کسی سے کچھ نہیں بتاتے۔

لہٰذا سب سے زیادہ جسمانی اور ذہنی زیادتیاں ہمارے ساتھ پریوار کے لوگ ہی کرتے ہیں۔ اگر پروار ہمیں اپنا بھی لیتا ہے تو سماج جینے نہیں دیتا۔

گوتم نے کہا کہ سرجری کرانا ہر کسی کے لئے ممکن نہیں۔ اس کے لئے ہمیں ایک حلف نامہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو دینا ہوگا، جو سی ایم او کی رپورٹ پر مبنی ہوگا۔

اتنا سب ہونے کے بعد ہی رپورٹ صحیح ہونے پر سرجری کی اجازت ملے گی ورنہ نہیں۔ پریشانی یہ ہے کہ اس وقت تک ہمارے آدھار کارڈ میں یا دیگر شناخت کارڈ میں 'ٹرانس جنڈر' ہی لکھا رہے گا، جو ہمارے لیے بڑی شرم کی بات ہوتی ہے۔



Conclusion:بات چیت کے دوران انہوں نے کہا کہ اس بل کو ہم نہیں مانتے بلکہ اس میں کئی طرح کی ترمیم ہونا ضروری ہے۔

اس کے بعد ہی ہمیں تمام حقوق مل سکتے ہیں لیکن اس کے لیے ہمارے سماج کے لوگوں سے بات کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ ہمارے لیے قانون بن رہا ہے۔
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.