اتر پردیش کی 59 اسمبلی سیٹوں کے لیے ووٹنگ کا چوتھا دور بدھ کو اودھ، روہیل کھنڈ اور ترائی کے علاقوں میں ہوا جو پہلے مرحلے کے رجحانات کے مطابق رہا۔ 2017 کے انتخابات میں 62.72 فیصد کے مقابلے میں مجموعی ووٹنگ شرح کم یعنی 57.72 فیصد درج ہوئی ہے۔ UP Election Analysis
مثال کے طور پر سیتاپور ضلع میں پچھلے انتخابات کے مقابلے میں 10 فیصد کم ووٹنگ ہوئی، لکھیم پور کھیری میں پولنگ فیصد 6.5 فیصد، پیلی بھیت میں 6 فیصد، رائے بریلی میں 2.5 فیصد کم اور لکھنؤ میں 3.5 فیصد کم ہوا۔
سنہ 2017 کے انتخابات میں، بی جے پی نے فیز 4 کی 59 سیٹوں میں سے 50 پر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ اس کی اتحادی اپنا دل (انوپریا پٹیل دھڑے) نے ایک سیٹ جیتی تھی۔ جاٹ، یادو اور مسلم ووٹر- جو کہ بی جے پی مخالف سمجھے جاتے ہیں، اس دور میں آبادی کے لحاظ سے مضبوط نہیں تھے۔ لہذا، چوتھے راؤنڈ میں، بی جے پی کیمپ کو امید تھی کہ پارٹی پہلے کے تین مراحل میں ہونے والے نقصان کی تلافی کرے گی۔ تاہم، زمینی رپورٹس بتاتی ہیں کہ بی جے پی کو خاطر خواہ فائدہ نہیں ملا ہے۔
رپورٹس بتاتی ہیں کہ سماج وادی پارٹی پورے خطے میں حکمراں پارٹی کو سخت مقابلہ دینے میں کامیاب رہی ہے۔
- ووٹ کا فیصد
ووٹنگ کے ایک اعلی فیصد کو روایتی طور پر ماہرین نفسیات نے تبدیلی کے لیے ووٹ کے طور پر دیکھا ہے، لیکن یہ اصول تمام حالات میں درست نہیں ہوتا ہے۔ انتخابی امورات کے ماہر وکاس جین کے مطابق، چوتھے مرحلے میں ووٹنگ کا کم رجحان بی جے پی کے کارکنوں اور حامیوں میں جوش و خروش کی کمی کا اشارہ ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ 2017 میں بی جے پی کے امیدواروں نے 30,000 سے زیادہ ووٹوں کے فرق سے علاقے کی تقریباً 35 سیٹیں جیتی تھیں۔ ووٹنگ کا کم فیصد اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس بار بی جے پی کے کارکنوں اور ووٹروں میں توانائی کی سطح کم ہے۔ یہ اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ اس سال مقابلہ سخت ہے اور فتح کا مارجن کم ہونے کا امکان ہے۔
- آبادیاتی تقسیم
راؤنڈ 4 میں تقریباً 26 فیصد ووٹرز پر مشتمل شیڈول کاسٹ کے ساتھ، کمیونٹی کے ووٹ خاص طور پر غیر جاٹو ایس سی - کا انتخابی نتائج پر خاصا اثر پڑے گا۔ زمینی رپورٹس بتاتی ہیں کہ پاسی برادری سمیت ایسے ووٹروں کے کچھ حصے بظاہر بی جے پی سے دور ہو گئے ہیں اور کمیونٹی کے ووٹ بی ایس پی، ایس پی، کانگریس اور بی جے پی کے درمیان تقسیم ہو گئے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، ہندوتوا کے دائرے میں غیر جاٹو دلتوں اور غیر یادو او بی سی کو اکٹھا کرنے کا بی جے پی کا سوشل انجینئرنگ فارمولہ جسے ماضی کے انتخابات میں کمال کامیابی کے ساتھ استعمال کیا گیا تھا ،اس انتخاب میں اس انداز میں کامیاب ہوتا دکھائی نہیں دیا۔
سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے سربراہ اکھلیش یادو نے کھلے عام دلت ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش نہیں کی تھی، لیکن بیک چینل کی حکمت عملیوں کو استعمال کیا تھا۔ بی ایس پی کے سابق لیڈر اندرجیت سروج کو کچھ عرصہ قبل ایس پی کا قومی جنرل سکریٹری مقرر کیا گیا تھا، جب کہ دیگر پسماندہ لیڈروں جیسے لال جی ورما، رام اچل راج بھر اور آر کے چودھری کو بھی پارٹی میں شامل کیا گیا تھا۔ بی ایس پی کے کئی ضلع زونل کوآرڈینیٹر بھی ریاستی اسمبلی کے انتخابات کی دوڑ میں ایس پی میں شامل ہو گئے تھے۔
- بی جے پی کے چیلنجز
کیڈروں کی بے حسی اور بڑھتی ہوئی اندرونی چپقلش کے درمیان حکومت مخالف لہر کا مقابلہ کرنے کیلئے بی جے پی کی تھنک ٹینک پریشان کن صورتحال سے دوچار ہے۔ چار مرحلوں میں اسمبلی کی 403 نشستوں میں سے دو سو اکتیس نشستوں پر کوئی بی جے پی موافق یا مخالف لہر دیکھنے میں نہیں ملی لیکن یہ طے ہے کہ بی جے پی کے کارکنوں میں جوش و جذبے کی کمی اس الیکشن کا خاصہ رہی۔ ان کارکنوں نے 2017 میں زعفرانی پارٹی کو بڑی تعداد میں ووٹ دیا تھا۔
بی جے پی کے لیے دو لحاظ سے چیلنجز سامنے آئے ہیں۔ اول یہ کہ 2017 کے انتخابات میں پارٹی کی کارکرگی اپنے نقطۂ عروج پر تھی۔ دوم یہ کہ سوامی پرساد موریہ سمیت ریاستی کابینہ کے وزراء نے آخری لمحات میں استعفے پیش کئے۔ اس وجہ سے بی جے پی قیادت نے نئے چہروں کو لا کر 40 فیصد ایم ایل ایز کو تبدیل کرنے کے اپنے پہلے منصوبے پر عمل نہیں کیا۔ لہٰذا چوتھے مرحلے کے کئی اضلاع بشمول لکھیم پور کھیری، سیتا پور اور رائے بریلی میں اندرونی کشمکش کی یہ صورتحال رائے دہندگان کے رویے پر حاوی رہی۔
ایس پی کی زیرقیادت اتحاد کی طرف سے دئے گئے زبردست چیلنج کو دیکھتے ہوئے، بی جے پی کا اپنا اندازہ یہ تھا کہ پارٹی، بہترین طور پر، چوتھے دور میں نقصان کو کم کرنے کی توقع کر سکتی ہے۔ 2017 کے انتخابات میں، مثال کے طور پر، بی جے پی نے پیلی بھیت کی تمام 4 سیٹیں، لکھیم پور کھیری کی تمام 8 سیٹیں، فتح پور کی 6 سیٹوں میں سے 5 اور ہردوئی کی 8 سیٹوں میں سے 7 سیٹیں جیتی تھیں۔ لیکن اندازہ یہ ہے کہ بی جے پی کی خوش فہمی زمینی سطح پر بہتر نتیجہ لانے میں کامیاب نہیں ہوسکتی ہے۔
بی جے پی قیادت اپنی برتری برقرار رکھنے کیلئے ایس پی پر تاپڑ توڑ حملہ کرنے کی حکمت عملی پر انحصار کر رہے ہیں۔ وہ ایس پی کو ایک ایسی پارٹی کے طور متعارف کرتی ہے جو مجرموں اور ملک دشمن عناصر کی حمایت کرتی ہے۔ خود وزیر اعظم نریندر مودی نے حال ہی میں ایس پی کے انتخابی نشان (سائیکل) کا اشارتاً حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 2008 کے گجرات دھماکہ کیس میں بم سائیکل پر نصب کیے گئے تھے۔
مرکزی وزیر انوراگ سنگھ ٹھاکر نے الزام لگایا کہ 2008 کے احمد آباد بم دھماکوں کے ایک ملزم کے ایس پی لیڈر سے تعلقات تھے۔ چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ ایس پی لیڈروں کو طمنچہ واد (ہتھیار بند غنڈے) کہہ کرپکاررہے ہیں اور اعلاناً دھمکی دے رہے ہیں کہ 10 مارچ یعنی ووٹ شماری کے دن کے بعد کارروائی کیلئے بلڈوزر تیار رکھے ہوئے ہیں۔
چار مراحل کے انتخابات کے بعد جبکہ اتر پردیش اسمبلی کی نصف سے زیادہ نشستوں کا احاطہ ہوچکا ہے، یہ بات واضح طور سامنے آگئی ہے کہ متعدد پارٹیوں کے درمیان اتحادون کے باوجود اصل مقابلہ دورخی ہے اور یہ مقابلہ بی جے پی اور سماج وادی پارٹی کے درمیان ہے۔