معاملہ ہے ضلع بہرائچ کا جہاں کے الہ آباد بینک برانچ باباگنج جہاں کے ملازمین کا کام ہمیشہ متنازعہ ہی رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ الہ آباد بینک ضلع کے اہم بینکوں میں شامل ہے اور کئی دہائیاں قبل سے برانچ چل رہی ہے۔
اس کی وجہ سے کافی تعداد میں صارفین کو اس بینک کی شاخ سے جوڑا ہے۔ ابھی حال ہی میں انڈین بینک کو الہ آباد بینک انضمام کر دیا گیا ہے ۔
اس کی وجہ سے زیادہ تر بچت کھاتا صارف کے اکاؤنٹ بند ہوگئے ہیں۔ اب انہیں اپنے اکاؤنٹ چلانے کے لیے نۓ طور پر آدھار سے لنک اور دوسرے عمل کے بعد و کے. وائ.سی کرانے کے بعد ہی اکاؤنٹ کو چالو کرسکتے ہیں ،
صارفین آدھار کو لنک کروانا ایک ٹیڑھی کھیر بنتی جا رہی ہے ۔ ناخواندہ افراد کا استحصال کیا جارہا ہے، ذرائع کے مطابق بینک صارفین کو جو مفت فارم ملنا تھا، وہ فوٹو اسٹیٹ کی دکانوں پر فروخت کیا جارہا ہے۔
اس کے بعد لمبی لائن، کوئی خیمہ اور نہ ہی پانی کا کوئی بندوبست, ان حالات میں بینک کی جانب سے حکومت کے ذریعہ دی جانے والی سہولیات کے دعوے کھوکھلے نظر آتے ہیں-
روپیوں کی جمع، نکاسی اور ای کے.وائی. سی. کے لئے صارفین کی لائن رات 10 بجے سے ہی لگنا شروع ہوجاتی ہے، اس سلسلے میں صارف نے بتایا کہ رات کے دس بج رہے ہیں، ہم بینک کے ساتھ ایک دائرے میں بیٹھے ہیں، کہ ہم آدھار کارڈ کو جوڑنے کے لئے چار دن سے بینک کا چکر لگا رہے ہیں۔
لیکن اب تک نمبر ہم نہیں آیا ہے، صبح تک یہ تعداد سینکڑوں کی تعداد کو عبور کرلیتی ہے، دوپہر کے وقت، بینک کے ذریعہ عام طور پر نیٹ ورک یا نقد رقم ختم کی افواہیں پھیلا دی جاتی ہیں، پھر شام چار بجتے ہی بینک بند کردیا جاتا ہے۔صافین خالی ہاتھ واپس لوٹ جاتے ہیں، اسی طرح لوگ ہفتوں دوڑتے رہتے ہیں۔
اس سلسلے میں جب برانچ منیجر سے گفتگو ہوئی کہ سینکڑوں صارفین روزانہ خالی ہاتھ واپس چلے جاتے ہیں، آپ عوامی مفاد کے لئے کوئی راہ تلاش کریں تاکہ صارفین کے ساتھ ہونے والے استحصال کو روکا جاسکے۔
اس سلسلے میں بینک عہدیدار کچھ بھی کہنے کو تیار نہیں کوئی جواب بھی نہیں دیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس طرح سے صارفین کے ساتھ ہونے والے استحصال کو کیسے کنٹرول کیا جائے گا؟