ریاست اترپردیش میں بی جے پی حکومت BJP Government In Uttar Pradesh کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی اعظم خان Azam Khan پر سیاسی شکنجہ تیز ہو گیا تھا اور پے در پے 86 مقدمات دائر کراکر ان کو سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا گیا۔ اعظم خاں کو اترپردیش میں مسلم قائد کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ اس لئے اعظم خاں کے حامیوں کا خیال ہے کہ اعظم خاں کو قید و بند کرکے حکومت مسلم قیادت کو کمزور کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔
رامپور میں معروف سماجی کارکن اور اعظم خاں کے قریبی ایڈووکیٹ عظیم اقبال خاں نے اپنے خیالات کا کچھ اسی طرح اظہار کیا۔ گذشتہ 40 برسوں کے دوران اترپردیش کی سیاست میں ایک اہم مقام بنانے والے سماجوادی پارٹی کے قدآور رہنما، سابق وزیر اور موجودہ رکن پارلیمان محمد اعظم خاں پر عائد متعدد مقدمات کی بنا پر تقریباً 22 ماہ سے سیتاپور جیل میں قید ہیں۔
آئندہ ہونے والے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر ذرائع ابلاغ کے مقامی اداروں اور عوام کے درمیان اس قسم کی خبریں تیزی سے گردش کر رہی ہیں کہ رکن پارلیمان اعظم خاں خود ہی رامپور کی سیٹ سے الیکشن لڑیں گے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پارٹی کارکنان نے اپنے رہنماء اعظم خاں کو دوبارہ سے رکن اسمبلی بنانے کے لئے تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ اس متعلق سماجوادی پارٹی کے نائب ضلع صدر اور سابق لوک سبھا امیدوار فراست علی خان نے کہا کہ فی الحال اعظم خان کی جانب سے ایسی کوئی اطلاع نہیں آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ اعظم خان ہی لیں گے کہ رامپور کی شہر سیٹ اور پورے ضلع کی پانچوں سیٹوں پر کون کون انتخابات میں حصہ لیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اعظم خان کا جو بھی فیصلہ ہوگا ہم تمام پارٹی کارکنان اپنے امیدواروں کو جیت دلانے کے لئے جی جان سے محنت کریں گے۔
دوسری جانب سماجوادی پارٹی کے ضلع پنچایت رکن ہرگیان سنگھ نے کہا کہ رامپور ضلع کے لوگ بی جے پی کی دہشت سے پریشان ہو چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ رامپور ضلع اعظم خان کے ترقیاتی کاموں سے بھرا پڑا ہے، لوگ آج بھی اعظم خان کے ترقیاتی کاموں کو یاد کرتے ہیں اس لئے یہاں سے اعظم خان خود الیکشن لڑیں یا کسی کو لڑوائیں یہ سیٹ سماجوادی ہی جیتے گی۔
اترپردیش کی تقدیر کا فیصلہ کرنے والے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر حکمراں جماعت بھارتی جنتا پارٹی اور ریاست کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ جہاں ریاست کی عوام کے درمیان پہنچ کر اپنی حصولیابیاں گنانے کا کوئی موقع نہیں چھوڑ رہے ہیں تو وہیں دیگر چھوٹی بڑی پارٹیاں بھی سرگرم ہیں۔
وہیں اترپردیش حکومت میں چار بار کے وزیر اور ریکارڈ نو بار مسلسل رکن اسمبلی رہے اعظم خان حکومت کا تختہ پلٹنے کے ساتھ ہی سیاسی بغض و عداوت کا شکار ہو گئے تھے۔
ریاست میں یوگی حکومت کے اقتدار میں آتے ہی اعظم خان پر مختلف الزامات کے تحت پے در پے 86 مقدمات قائم کر دیے گئے تھے۔ یہاں تک کہ جب انہوں نے 26 فروری 2020 کو اپنے مقدموں کی سماعت کے لئے عدالت میں حاضری دی تو وہیں سے ان کو ان کے اہل خانہ کے ساتھ گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا تھا اور وہ آج تک جیل میں قید و بند کی زندگی گزار رہے ہیں۔
واضح رہے کہ اعظم خان نے تقریباً 40 برس قبل اپنے سیاسی سفر کا آغاز طالب علمی کے زمانے سے ہی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلبہ یونین کا الیکشن جیت کر کیا تھا۔
اے ایم یو سے وکالت کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اعظم خان نے رامپور شہر اسمبلی اسملی انتخابات لڑکر باقاعدہ طور پر ملک کی سیاست میں قدم رکھا۔
اس کے بعد 1986 میں جب انہوں نے بابری مسجد تحریک میں شمولیت اختیار کی اور اس میں اپنا فعال کردار ادا کرنے کی وجہ سے بہت جلد ہی ان کو مسلم قائد کے طور پر پہچانا جانے لگا۔
یہ بھی پڑھیں: UP Government on Azam Khan Bail: اعظم خان کی ضمانت منسوخ کرنے کے لیے عرضی دائر
یہی وجہ ہے کہ جب ملائم سنگھ نے اعظم خان جیسے مسلم لیڈر کو ساتھ لیکر سماجوادی پارٹی کی بنیاد ڈالی تو ملائم سنگھ یادو کو کچھ خاص حلقوں میں ملا ملائم سنگھ کا نام دیکر تنز کے جملے بھی کسے جاتے رہے ہیں۔ اعظم خان جہاں مجاہد آزادی مولانا محمد علی جوہر سے متاثر نظر آتے ہیں تو وہیں وہ سرسید احمد خان سے بھی کافی متاثر نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقلیتوں کی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کے لئے اعظم خان نے محمد علی جوہر کے نام سے منسوب ایک محمد علی جوہر یونیورسٹی کا قیام کیا تھا۔