جب بھی کوئی اچھا کام کرنا ہو تو شروع میں وہ کام بہت مشکل نظر آتا ہے۔ الگ الگ طرح کی مشکلات اور پریشانیاں آتی ہیں۔ لیکن جب مشکلات آسانیوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں تو نئے ریکارڈ قائم ہوتے ہیں۔ ایسی ہی ایک نظیر بریلی میں تین بھائیوں نے پیش کی ہے۔ ان تینوں بھائیوں کو 'ریئل برادرس' کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
مستقل محنت اور لگن سے والدین کے زیر سایہ بچوں کی تعلیم و تربیت کیا کیا رنگ دکھاتی ہے اس کی ایک منفرد مثال بریلی کے ان تین سگے بھائیوں کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ ان تینوں بھائیوں نے بریلی میں واقع 'ہاٹ مین انٹر کالج' جانےکے پہلے دن سے لے کر اب تک کوئی چھٹّی نہیں کی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ ان تینوں بھائیوں میں سب سے بڑا بھائی اس برس بارہویں جماعت تک تعلیم مکمل بھی کر چکا ہے۔ لہذا، یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ مسلسل 14 برس تک ایک ہی اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والے طالبِ علم نے کوئی چھٹٰی نہیں کی۔ ان منفرد ریکارڈ کے لیے تینوں بھائیوں کو اعزاز سے بھی نوازہ جا چکا ہے۔
تینوں بھائیوں میں سب سے بڑا بھائی شجر الاسلام نے اس برس بارہویں جماعت کا امتحان دیا ہے تو منجھلے بھائی محمد زید نے دسویں جماعت کا امتحان دیا ہے۔ دونوں بھائیوں کا نتیجہ لاک ڈاؤن کے سبب تاخیر ہونے کی وجہ سے آنا باقی ہے۔ جبکہ سب سے چھوٹے بھائی محمد مقدام نے ساتویں جماعت پاس کر لی ہے۔ یعنی بالآخر بڑے بھائی نے 14 برس تک، مجھلے بیٹے نے 12 برس تک اور چھوٹے بیٹے نے نو برس تک اسکول سے چُھٹّی نہیں کی۔ یعنی صد فیصد حاضری کا منفرد ریکارڈ ان تینوں بھائیوں کو باقی طلبا سے علیحدہ مقام پر فائز کرتا ہے۔
جن لوگوں نے تعلیم حاصل کی ہے وہ بخوبی احساس کر سکتے ہیں کہ مسلسل 14 برس تک ایک ہی اسکول میں بغیر کسی چُھٹّی کے تعلیم حاصل کرنا کتنی بڑی بات اور ذمہ داری کا کام ہے۔ اتنی ذمہ داری سے تعلیم حاصل کرنا ناممکن جیسا محسوس ہوتا ہے۔ تصوّر کر سکتے ہیں کہ سردی، گرمی اور برسات میں ایسے کئی مواقع بھی آتے ہیں کہ چاہ کر بھی بچّے اسکول نہیں جا پاتے۔ اس کے علاوہ بچّوں کی طبیعت خراب ہونے کی صورت میں بھی چھٹی ہو جاتی ہے۔ شادی کی خوشی اور کسی غم کے ماحول میں بھی اسکول کی چُھٹّی ہو جانا لازمی ہے۔
یہ بات ناقابلِ تصور ہے کہ کوئی طلب علم پورے سیشن کے دوران صد فیصد حاضری درج کرا سکتا ہے۔ آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ ایک دن دادا کا انتقال ہوگیا۔ گھر میں رنج و غم کا ماحول تھا۔ سوگوار و رشتہ دار گھر میں آرہے تھے اور یہ تینوں بھائی اسکول جا رہے تھے۔ دراصل دادا نے ہی اپنے دورِ حیات میں کہا تھا کہ اگر میرا انتقال بھی ہو جائے تب بھی اسکول سے چھٹی نہ کرنا۔ دوپہر میں جب اسکول سے چھٹی ہوئی تو تینوں بھائی گھر واپس لوٹے اور دادا کے آخری رسومات میں شرکت کی۔ دوسرے دن اسکول انتظامیہ کو جب یہ اطلاع ملی تو اُنہوں نے تینوں بھائیوں کے تعلیم کے تئیں جزبہ کو سلام کیا۔
ان تینوں بھائیوں کو اس منفرد ریکارڈ کے لیے اترپردیش کے سابق گورنر رام نائک کے ہاتھوں اعزاز سے بھی نوازہ جا چکا ہے۔ راجستھان کے سابق چیف جسٹس جناب گنگا رام مولچندانی، سابق اے ایم یو وائس چانسلر ضمیر الدین شاہ کے علاوہ شہر کے تمام سیاست دان، افسر اور سماجی کارکنان بھی اعزاز سے نواز چکے ہیں۔ تینوں بھائیوں کا نام یوپی بُک آف ریکارڈ اور انڈیا بُک آف ریکارڈ میں بھی درج ہو چکا ہے۔ اب وہ لِمکا بُک آف ریکارڈ اور گنیز بُک آف ریکارڈ میں بھی اپنا نام درج کرانا چاہتے ہیں۔ اسکول کی جانب سے ہر برس رزلٹ کے ساتھ ایپریسی ایشن ایوارڈ سے بھی نوازہ جاتا ہے۔ لیکن یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ اس منفرد ریکارڈ کو قائم کرانے میں ان بھائیوں کے والدین کا بھی ضروری تعاون اور اہم کردار رہا ہے۔