اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں تبدیلیٔ مذہب کے بعد شادی کو پولیس نے فوراً روک دیا۔
پولیس نے دونوں کنبے کے ذمہ داران کو سمجھایا، نئے قانون کے مطابق ایسا کرنا مناسب نہیں ہے۔ اس بابت لڑکے اور لڑکی کو ڈی ایم کو پہلے اطلاع دینا ہوگا۔ اس کے بعد ہی شادی ہو سکے گی۔
معلوم رہے کہ دارالحکومت لکھنؤ کے پارا کوتوالی علاقے میں ایک مسلم لڑکے اور ہندو لڑکی کی شادی کی خبر ملتے ہی اکھل بھارت ہندو مہا سبھا کے ضلع صدر برجیش کمار نے پولیس کو خبر دی۔ اس کے بعد ہی پولیس نے فوراً شادی رکوا دی۔
اے ڈی سی پی ساؤتھ سریش چندر راؤت کے مطابق ڈوڈا کالونی میں ہندو مسلم لوگوں کی آپسی رضا مندی سے شادی ہو رہی تھی لیکن نئے قانون کی جانکاری دونوں کنبے کے ذمہ داران کو دی گئی تب جا کر معاملہ رفع دفع ہوا۔
اے ڈی سی پی ساؤتھ سریش چندر راوت کا کہنا تھا کہ لڑکے اور لڑکی کو مذہب تبدیلی کا فارم بھی دیا گیا ہے۔ اب دونوں طرف کے لوگ نئے قانون کے مطابق شادی کرنے پر راضی ہو گئے ہیں۔
معلوم رہے کہ دونوں کنبے نے شادی کی ساری تیاریاں مکمل کر لی تھیں یہاں تک کہ مہمان بھی آ گئے تھے لیکن پولیس میں شکایت کے بعد شادی روک دی گئی تھی جس کی وجہ سے آنے والے مہمانوں کو کھانا کھلا کر واپس بھیج دیا گیا تھا۔
قابل ذکر ہے کہ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی صدارت میں منعقد کابینہ اجلاس میں کئی تجاویز کی منظوری دی گئی ہے جس میں ایک ایگزیکٹو آرڈر کو منظور کر لیا گیا تھا جسے گورنر نے اگلے دن ہی منظوری دے دی تھی۔
مزید پڑھیں:
کسانوں کی حمایت میں اب سیاسی جماعتیں بھی پیش پیش
اس قانون کے تحت جبراً مذہب کی تبدیلی کے واقعات کی تحقیقات کی جائے گی۔
واضح رہے کہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے چند روز قبل بیان دیا تھا کہ لو جہاد کرنے والوں کے خلاف قانون بنایا جائے گا اور ایسا کرنے والوں کو سخت سزا دی جائے گی ۔
حالانکہ الہ آباد ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ بالغ خاتون اور مرد کو اپنی طرح کی زندگی جینے کا حق ہے اس میں 'ریاست' بھی دخل اندازی نہیں کر سکتی۔ اس کے باوجود قانون بن گیا۔
اترپردیش کے ضلع بریلی میں نئے قانون کے مطابق پہلی کارروائی ہوئی تھی اور اب لکھنؤ میں اس قانون کے تحت شادی روک دی گئی ہے۔