یروشلم: اسرائیلی فوج کے مطابق پیر کے روز بیت حنون میں اس کے پانچ فوجی ہلاک ہو گئے۔ اس طرح گزشتہ ہفتے کے دوران شمالی غزہ میں لڑائی میں ہلاک ہونے والے اسرائیلی فوجیوں کی تعداد 15 تک پہنچ گئی ہے۔
فوجیوں کی ہلاکتوں کی بڑی تعداد اسرائیلی عوام میں بے چینی پیدا کر سکتی ہے اور جنگ بندی کی حمایت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں فوجی خدمات لازمی ہیں، فوجیوں کی ہلاکتوں کی خبریں اسرائیلی حکومت پر تنازعات کو ختم کرنے کے لیے دباؤ بڑھا رہی ہیں۔
غزہ میں زمینی کارروائی میں کل 405 اسرائیلی فوجی مارے جا چکے ہیں اور سات اکتوبر سے جاری جنگ میں 800 سے زیادہ فوجی مارے جا چکے ہیں۔
خونریز جنگ سے اسرائیلی فوجی بھی تھک گئے:
اب اسرائیلی فوج کے کئی جوان غزہ میں نتن یاہو کی خونی پالیسی سے تھک چکے ہیں۔ کئی فوجی اس معاملے میں اب کھل کر بول رہے ہیں۔ ایسا ہی ایک اسرائیلی فوجی
یوتم ولک ہے جس کے دل و دماغ پر نہتے فلسطینیوں کے قتل کا منظر نقش ہو گیا ہے، وہ اسے بھلا نہیں پا رہا۔ اس کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے غزہ کی پٹی میں ایک نہتے فلسطینی نوجوان کو قتل کرنے کی تصویر اس کے ذہن میں نقش ہے۔
بکتر بند کور کے ایک افسر ولک نے کہا کہ، ہدایات یہ ہیں کہ غزہ میں اسرائیل کے زیر کنٹرول بفر زون میں داخل ہونے والے کسی بھی غیر مجاز شخص کو گولی مار دی جائے۔ ولک نے مزید کہا کہ اس نے کم از کم 12 افراد کو ہلاک ہوتے دیکھا، لیکن ایک نوجوان کی گولی لگنے سے ہوئی موت کو وہ بھلا نہیں سکتا۔
28 سالہ ولک کا کہنا ہے کہ، فلسطینیوں کو انسان کے طور پر نہ دیکھنے کی پالیسی کی وجہ سے اس نوجوان کو گولی مار دی گئی۔
ولک اسرائیلی فوجیوں کی بڑھتی ہوئی اس تعداد کا ایک حصہ ہے جو 15 ماہ کے تنازعے کے خلاف کھل کر بول رہے ہیں اور فوج میں مزید خدمت سے انکار کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اخلاقی خطوط سے تجاوز کرنے والے کاموں کو یا تو دیکھا ہے یا کیا ہے۔
تقریباً 200 فوجیوں نے ایک خط پر دستخط کیے ہیں، جس میں کہا گیا ہے کہ اگر حکومت نے جنگ بندی معاہدہ نہیں کیا تو وہ جنگ بند کر دیں گے۔ فوجیوں کا کہنا ہے کہ یہ شروعات ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ دوسرے بھی اس مہم سے جڑیں۔
فوجیوں کی جنگ ختم کرنے کی مہم ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب جنگ بندی مذاکرات جاری ہیں، اور امریکی صدر جو بائیڈن اور نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ دونوں نے 20 جنوری تک ڈیل کا مطالبہ کیا ہے۔
اسرائیلی فوجیوں نے بتائی فلسطینیوں پر ظلم کی کہانی:
غزہ میں لڑائی جاری رکھنے سے انکار کرنے والے سات فوجیوں نے خبر رساں ایجنسی اے پی کے ساتھ بات کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح فلسطینیوں کو اندھا دھند قتل کیا گیا اور ان کے گھروں کو تباہ کیا گیا۔ بہت سے لوگوں نے کہا کہ، انہیں ایسے گھروں کو جلانے یا گرانے کا حکم دیا گیا تھا جن سے کوئی خطرہ نہیں تھا، اور انہوں نے وہاں فوجیوں کو گھروں کو لوٹتے اور توڑ پھوڑ کرتے دیکھا تھا۔
اس معاملے میں اسرائیلی ڈیفنس فورس کا کہنا ہے کہ وہ فوجیوں کے خدمت کرنے سے انکار کرنے کی مذمت کرتا ہے اور انکار کی کسی بھی کال کو سنجیدگی سے لیا جائے گا، ہر معاملے کا انفرادی طور پر جائزہ لیا جائے گا۔ فوج نے مزید کہا کہ، فوجی خدمت کرنے سے انکار کرنے پر فوجیوں کو جیل جانا پڑ سکتا ہے، لیکن خط پر دستخط کرنے والے کسی فوجی کو ابھی تک حراست میں نہیں لیا گیا ہے۔
بین الاقوامی حقوق کی تنظیموں نے اسرائیل پر غزہ میں جنگی جرائم اور نسل کشی کا الزام لگایا ہے۔ بین الاقوامی عدالت انصاف جنوبی افریقہ کی طرف سے دائر کردہ نسل کشی کے الزامات کی تحقیقات کر رہی ہے۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت وزیر اعظم بینجمن نتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوو گیلنٹ کی گرفتاری کا مطالبہ کر رہی ہے۔
اسرائیلی فوجیوں کو جنگ کے طویل ہونے کی امید نہیں تھی:
جب ولک نومبر 2023 میں غزہ میں داخل ہوا تب اس کا خیال تھا کہ طاقت کا ابتدائی استعمال دونوں فریقوں کو میز پر لا سکتا ہے۔ لیکن جیسے جیسے جنگ آگے بڑھی، اس نے کہا کہ اس نے انسانی زندگی کی قدر کو بکھرتے دیکھا۔
کچھ فوجیوں نے اے پی کو بتایا کہ انہوں نے غزہ میں جو کچھ دیکھا اسے ہضم نہیں کرنا مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اب فوجی خدمات سے فوری سبکدوش ہونا چاہتے ہیں۔
27 سالہ ڈاکٹر یوول گرین نے غزہ میں تقریباً دو ماہ گزارنے کے بعد گزشتہ جنوری میں اپنے عہدے سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ فوجیوں نے گھروں کی بے حرمتی کی، طبی ایمرجنسی کے لیے کالے مارکر کا استعمال کرتے ہوئے گرافٹی لکھی، اور گھروں کو لوٹ لیا۔
اس نے کہا کہ حد تو تب ہوگئی جب اس کے کمانڈر نے فوجیوں کو ایک گھر جلانے کا حکم دیا۔ وجہ کے طور پر بتایا کہ، وہ نہیں چاہتے کہ حماس اسے استعمال کر سکے۔ گرین نے کہا کہ وہ ایک فوجی گاڑی میں بیٹھا، پلاسٹک کے جلنے کی بدبو کے درمیان اس کا دم گھٹ رہا تھا۔ اس نے کہا کہ، اس نے فلسطینیوں سے اس سے زیادہ چھیننے کی کوئی وجہ نہیں دیکھی جتنا وہ پہلے ہی کھو چکے ہیں۔ اس لئے اس نے مشن مکمل ہونے سے پہلے ہی اپنی یونٹ چھوڑ دی۔
حالانکہ کئی فوجی ایسے ہیں جو خدمات ترک کرنے کی خواہش ظاہر کرنے والوں سے اتفاق نہیں رکھتے۔ وہ اسرائیلی کارروائیوں کو اپنے دفاع کا حق قرار دے رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: