شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف احتجاج کر رہے طلبہ و طالبات کا کہنا ہے کہ آج ہمارے احتجاج کو دو مہینے مکمل ہوگئے ہیں ان دو مہینوں میں ہمیں خاصی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
یونیورسٹی اور علیگڑھ انتظامیہ کی جانب سے ہم پر دباؤ بنایا گیا، مقدمہ درج کیے گئے، والدین کے پاس نوٹس بھیجیں گئے اور ہر وہ ممکن کوشش کی جس سے ہم اس احتجاج کو ختم کر دیں، لیکن ہم یہ احتجاج کرتے رہیں گے جب تک مرکزی حکومت اس کالے قانون کو واپس نہیں لے لیتی۔
طلباء کا کہنا ہے ہم نے یہ طے کرلیا ہے جب تک ہم جیتیں گے نہیں ہٹیں گے نہیں۔
یونیورسٹی کے باب سید پر احتجاج شروع کرنے والی طالبہ اقرا نے بتایا دو مہینے سے احتجاج چل رہا ہے اور یہ جب تک چلے گا اس وقت تک مذہب کے نام پر ہم کو الگ کیا گیا ہے ہم سب بھارتی کے شہری ہیں۔
ہمیں شہریت ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور کسی کو بھی اس کی ضرورت نہیں، انہوں نے کہا کہ اگر آپ اقلیت کو بھی شہریت دینی ہوتی تو ہم دل سے استقبال کرتے۔
پراکٹر کی ٹیم روز آتی تھی، ہمیں دھمکاتی تھی، ڈرایا کرتی تھی، ہمارے شناختی کارڈ دیکھا کرتی تھی، ہمارے گھر پر نوٹس پہنچایا تھا، تاکہ ہم ڈر جائیں، ذاتی طور پر کال کرکے کہا جاتا تھا کہ آپ اپنی بیٹی اور بیٹے کو یہاں سے ہٹا دیجے، ورنہ ہم آپ کے بچوں کے خلاف ایکشن لیں گے۔
ہر طریقہ سے دبایا گیا، بہت کوشش کی گئی کہ ہم یہاں سے ہٹ جائے ہم بھی جب تک کھڑے رہیں گے جب تک اس کا حل نہیں آتا۔
یونیورسٹی طلبا یونین کے سابق صدر فیض الحسن نے بتایا یہ تو حکومت اور انتظامیہ کا سب سے خراب رویہ ہے۔ اگر کوئی بھی آواز اٹھائیں تو اس پر مقدمہ کردو، اور اس کو جیل میں ڈال دو، اس کو توڑ دو جیسے روک سکے روکو، مقدمہ کرکے اس کو ڈراؤ۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے اوپر مقدمہ ہوا ہمارے اوپر ذرا بھی افسوس نہیں ہے کیونکہ یہ لڑائی ہم نے یہ طے کرلیا جب تک ہم جیتیں گے نہیں ہٹیں گے نہیں۔
حکومت سے بھی درخواست کرتے ہیں ایسی چیز نہ کرے جس سے ملک ٹوٹ جائے، سنہ 1947 میں ملک جب آزاد ہوا تھا تو ملک کے پاس کچھ نہیں تھا۔