تین طلاق کا مدعا مسلم معاشرے کے لیے ہمیشہ سے نازک رہا ہے، اب سے تقریباً پانچ برس قبل میاں بیوی کے درمیان تین طلاق کے معاملے منظر عام پر آنا عام بات تھی. لیکن قانون نافذ ہونے کے بعد شرعی عدالتوں میں ایسے کیسز میں کافی کمی محسوس کی جارہی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قانون نافذ ہونے کے بعد لوگ دارالافتاء جانے کے بجائے قانون کا سہارا لینے کو زیادہ ترجیح دے رہے ہیں۔
درگاہ اعلیٰ حضرت پر واقع مرکزی دارالافتاء، مدرسہ منظر اسلام دارالافتاء، مدرسہ مظہرِ اسلام دارالافتاء کے علاوہ رضوی دارالافتاء موجود ہیں۔ ان چاروں دارالافتاء یعنی ان چاروں شرعی عدالتوں میں طلاقِ ثلاثہ کے معاملوں میں تقریباً 50 فیصد کی کمی آئی ہے۔ ایک تخمینہ کے مطابق قانون بنائے جانے سے قبل دارالافتاء میں پانچ سے سات معاملے روزانہ آتے تھے۔
اب کم ہوکر دو سے تین کا ہی اوسط رہ گیا ہے، اس اعداد و شمار کو مزید کم کرنے کے مقصد سے علماء کرام نے سرگرمیاں تیز کردی ہیں۔
وہ ہر جگہ لوگوں کو طلاق ثلاثہ کو جائز کاموں میں سب سے ناپسندیدہ عمل بتا رہے ہیں اور اگر صلح کا کوئی راستہ نہیں بچا ہے تو طلاق دینے کا سب سے صحیح طریقہ کیا ہوسکتا ہے بتارہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: تبلیغی جماعت معاملہ: عدالت نے پولیس افسران کو طلب کیا
آل انڈیا تنظیم علماء اسلام کے جنرل سیکرٹری مولانا شہاب الدین رضوی کا کہنا ہے کہ شریعت میں عورتوں کے ساتھ بہتر سلوک کی ہدایت دی گئی ہے۔ لوگ تین طلاق دیتے ہیں اور خواتین کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اسی کمزوری کے پیش نظر حکومت ہند نے طلاق ثلاثہ پر قانون بنایا، اب قانون کے خوف سے لوگ تین طلاق سے بچنے کی کوشش کررہے ہیں۔