لکھنو:اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنو کے معروف شیعہ علماء بھی شریک ہوئے اور عوام میں بوڑھے بچے نوجوان مرد خواتین نے پورے جوش و خروش اور عقیدت کے ساتھ شرکت کیا اور حضرت امام حسین اور کربلا میں شہید ہونے والے 72 شہیدوں کو یاد کر گریا و زاری کیا۔
لکھنو کے ناظم علی امام باڑے سے تال کٹورا تک سینکڑوں کی تعداد میں انجمن ہائے ماتمی نے جلوس میں شرکت کی جبکہ ننھےبچے اور ننھی بچیوں و خواتین نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جگہ جگہ سبیل پلایا گیا اور تبرکات بھی تقسیم کیے گئے۔
اس موقع پر معروف شیعہ عالم دین مولانا کلب جواد کے بیٹے کلب احمد نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ لکھنو کا چہلم سب سے منفرد اور علیحدہ ہوتا ہے یہاں پر لکھنو و اطراف کے لوگ جلوس میں شرکت کرنے آتے ہیں اور سینکڑوں کی تعداد میں انجمن ہائے ماتمی شرکت کرتی ہیں۔
وکٹوریہ اسٹریٹ پر واقع ناظم علی کے امام باڑے میں مجلس نوحہ اور ماتم سے ابتدا ہو کر کربلا تال کٹورہ میں تمام انجمن ہائے ماتمی پہنچتی ہیں اور نوحہ ماتم و گریازاری کرتی ہیں اور حضرت امام حسین سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ لکھنو کا عزاداری بھی بہت ہی منفرد ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں لکھنو کے عزاداری کی تعریف کی جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ عام طور پر عزاداری کا سلسلہ چہلم کے بعد تقریبا ختم ہو جاتا ہے لیکن لکھنو میں آٹھ ربیع الاول تک عزاداری کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور آٹھ ربیع الاول کو چپ چاپ تعزیہ بھی اٹھائی جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:Historical Chehallum جونپور کا تاریخی چہلم جس کا اہتمام دو دن پہلے سے شروع ہو جاتا ہے
ان کا کہنا ہے کہ اس کے پیچھے پوری کہانی ہے، کہا جاتا ہے کہ لکھنو میں نواب صاحب تھے اور اس دوران حالات خراب تھے جس کی وجہ سے تعزیہ اٹھانے میں تاخیر ہوئی تھی اور اٹھ ربیع الاول کو تعزیہ اٹھی تھی اور اس وقت پوری خاموشی کے ساتھ تعزیہ اٹھایا گیا تھا انہی کے نقش قدم پر اج بھی چپ چاپ تعزیہ کے نام سے تعزیہ اٹھائی جاتی ہے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ شامل ہوتے ہیں۔