لکھنؤ: دلدار علی غفران مآب فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام حضرت غفران مآب مولانا سید دلدار علی نقوی کے دیسہ کی مجلس کا انعقاد کیا گیا۔ پروگرام کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ مجلس سے مولانا نفیس اختر زینبی نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ عالم یقیناً قابل احترام ہے۔ اس وقت جب اس کے پاک، پاکیزہ علم کے اثرات اس کی زندگی میں ظاہر ہوتے رہیں اور یہ عطائے علم ایک فرد سے ایک اجتماع تک اس کے علم کی نشانیاں بن کر اسے باقی رکھتی ہے۔ ہم اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایک عالم کی موت ایک دنیا کے لیے جہالت کی موت بن جاتی، اس لیے کہ موت سے پہلےاس عالم نے ایک عالم کو زندگی بخشی اور جو اس کی رحلت کے بعد تک جہالت کے قلعوں کو منہدم کرتی رہیں گی۔
مولانا نفیس اختر زینبی نے مزید کہا کہ ایک عالم کی موت ایک عالم کی موت بن جاتی ہے۔ اسلئے کہ اس عالم میں اس دنیا میں اس جہان میں ہم تمام انسان زندگی بسر کرتے ہیں کہ جس میں وہی انسان کامیاب، محبوب، دانشمند ،مقبول ،با عزت سمجھا جاتا ہے کہ جس کے ذریعہ عام انسان اگر بہت اچھا انسان نہ بھی بنایا جاسکے تب وہ کم از کم ظالم، بدکار، بے عزت انسان بننے سے بچایا جاسکے۔ اس لیے یہ بھی فرمایا گیا ۔’’ علم کی طلب واجب ہے ہر مسلمان مرد اور عورت پر‘‘ اور یہ بھی سمجھایا گیا افسوس ہے اس پر جو علم حاصل نہ کر سکے اور اس پر بھی افسوس ہے جو علم تو حاصل کرلے لیکن اس پر عمل نہ کر سکے۔
مولانا نفیس اختر زینبی آخر میں کہاکہ استاد الکل فی الکل، مجدد شریعت ہندوستان کی پہلی مسند اجتھاد، آیت اللہ العظمیٰ، آیۃ الاستناد ، لسان الکلام ، عماد الاسلام حضرت علامہ غفران مآب سید دلدار علی نقوی نے لکھنؤ کے بعد عراق و ایران تعلیم حا صل کی، بعد ازاں خدمت دین انجام دیں، یہ اسی کا ثمرہ ہے ۔
مولانا نے مزید کہا کہ ان کی علمی کاوشوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا، آج تقریباً دو صدیاں گزرگئیں مگر ان کا تذکرہ با قی ہے کیونکہ انہوں نے اہل بیتؑ کے پیغام کی نشر واشاعت کے لیے اپنی پوری زندگی صرف کر دی۔ اور اللہ کا وعدہ ہے جو میرا ذکر کو باقی رکھے گا میں اس کے ذکر کو باقی رکھوں گا۔ مولانا نے آخر میں مصائب سید الشہداء بیان کیے جسے سن کر عزاداروں نے گریہ و زاری کی۔ بعد مجلس علامہ غفران مآب سید دلدار علی نقوی کے لیے سورہ فاتحہ پڑھی گئی۔
مزید پڑھیں: شیعہ سنی اتحاد وقت کا تقاضہ: مولانا سید شباب نقوی