لکھنؤ: سپریم کورٹ کے ذریعہ گجرات فسادات سے وابستہ سبھی معاملوں کی سماعت بند کر دینے و بابری مسجد انہدام Demolition of Babri Masjid کے حوالے سے سبھی عرضیوں پر سماعت بند کرنے کے فیصلے کو اقلیتی کانگریس کے ریاستی صدر شاہ نواز عالم نے عدلیہ کی تاریخ کا سب سے داغدار باب بتایا ہے۔ انہوں نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ ایسا واضح ہوتا ہے کہ میڈیا کے بعد اب عدلیہ خود کو حکومت کا حصہ بنانے کی جانب گامزن ہے۔ Stopping the hearing of the Babri Masjid demolition and Gujarat riots is a tainted chapter for the judiciary
یہ بھی پڑھیں:
شاہنواز عالم نے کہا کہ اب جج یہ طے کریں گے کہ کون سا معاملہ قدیم ہو چکا ہے اور درخواست گزار کا کس معاملے میں انصاف مانگنے کا اختیار ہے اور کس میں نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ گجرات فسادات معاملے میں امت شاہ کے سابق وکیل اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یو یو للت کو بتانا چاہیے کہ اگر کوئی درخواست گزار انصاف چاہتا ہے تو اسے کہاں جانا چاہیے۔ کیا یہ انصاف پانے کے اختیار کو سلب کرنا نہیں ہے؟ یہ کیسے ہونے دیا جاسکتا ہے کہ عدلیہ خود عوام کو انصاف پانے کے اختیار کو ختم کر دے۔
بابری مسجد مسجد انہدام معاملے میں بی جے پی رہنما اوما بھارتی، مرلی منوہر جوشی، ونے کٹیہار سمیت متعدد کے خلاف جاری توہین عدالت کی کارروائی کو بند کر دینے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو بھی انہوں نے انصاف پر مبنی فیصلے کے بجائے سیاسی فیصلہ بتایا۔ انہوں نے جسٹس ایل کول کے تبصرہ " بابری مسجد کے فیصلے کے بعد اب اس معاملے میں کچھ نہیں بچا ہے اور آپ مرے ہوئے گھوڑے کو کوڑا مارتے نہیں رہ سکتے" کو سیاسی تبصرہ بتایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کیا سپریم کورٹ یہ کہنا چاہ رہا ہے کہ اب بابری مسجد انہدام کا جرم صرف اس لیے جرم نہیں رہا کیونکہ اسے 30 برس ہوگئے جب کہ بابری مسجد فیصلے میں خود سپریم کورٹ نے اسے جرم مانا ہے یہاں تک کہ لبراہن کمیشن کی تشکیل ہی اس جرم کی جانچ کے لیے ہوئی تھی۔
نواز نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہ فیصلہ سنانے والے سپریم کورٹ کے ججز کو دنیا کے انصاف کی تاریخ بالکل معلوم نہیں ہے؟ کیا انہیں 40 دہائی کی جرمنی میں نازی کے دور میں ہوئے قتل عام کا مقدمہ حال فی الحال تک چلا ہے۔ کیا انہیں یہ بھی نہیں پتا کہ پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں 1971 میں ہوئے قتل معاملے کے مقدمہ میں حال ہی میں سزا ہوئی ہے۔
شہنواز عالم نے الزام لگایا کی 2014 کے بعد سے عدلیہ کا ایک بڑا حصہ سنگھ کے ایجنڈے پر کام کر رہا ہے وہ چاہتا ہے کہ عدلیہ کی حالت اتنی خراب ہو جائے کہ لوگ اس پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیں اور حکومت کو عدالتوں میں گھسیٹنا بند کر دیں۔