اور کچھ معاملات میں مسلمانوں نے اپنے رسوم و رواج کو چھوڑ کر اندھی تقلید میں اس قدر غیروں کی تہذیب کو اپنے اوپر مسلط کر لیا ہے کہ اب یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ اسلام میں ناجائز یا غلط نہیں ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں اسے سختی سے منع کیا گیا ہے۔
جس کی سب سے بڑی مثال شادی بیاہ میں کھڑے ہوکر کھانا پینا اور غیر عورتوں کے ساتھ ایک ہی شامیانے میں خوش گپیاں کرنا ہے۔
شادی-بیاہ میں کھانا کھلانے کا طریقہ اب اسلامی طور طریقوں کے بالکل برخلاف ہو گیا ہے۔ ان غیر اسلامی فعل کی وجہ سے علماء کرام خاص طور پر تشویش میں مبتلا ہیں اور اب انہوں نے ایس شادیوں میں جہاں غیر اسلامی طریقے اختیار کیے جاتے ہیں، کی تقریبات کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ چوں کہ اسلام نے نے کھڑے ہوکر کھانے پینے کو ناجائز قرار دیا ہے۔
آل انڈیا تنظیم علماء اسلام کے عہدیداران نے تنظیم کے ذریعے اس تعلق سے مہم چلانے، عوام کو بیدار کرنے اور ضرورت آنے پر فتویٰ جاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔
بریلی میں درگاہ اعلیٰ حضرت سے وابستہ آل انڈیا تنظیم علماء اسلام نے اپنے مکتبِ فکر کے لوگوں کو بیدار کرنے کے مقصد سے حکم دیا ہے کہ شادی-بیاہ کے موقع پر کھانے اور پینے کی عمل بیٹھکر پورا کریں۔ یہ حکم نہ صرف شادی-بیاہ کے کھانے پر عائد ہوتا ہے، بلکہ کسی بھی موقع پر کھانے اور پینے پر بیٹھنے کا اہتمام کریں۔
تنظیم کے عہدیدار نے مزید کہا ہے کہ اسلام نے کھانا کھانے کے آداب بتائے ہیں، جنہیں سیکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ لیکن اس دور میں مسلمان مذہبی آداب کے برعکس سمت میں جا رہا ہے۔
اس کے مدنظر تنظیم نے عوام کو بیدار کرنے کے لیے ایک پینل بنایا ہے۔ یہ پینل مساجد، مدارس اور دیگر تقریبات میں تقاریر اور ذاتی طور پر کھڑے ہوکر کھانا کھانے سے لوگوں کو روکے گا۔
اس کے لیے مساجد کے امام، مدارس کے مدرس اور مسلم تنظیموں کو ساتھ لیکر مہم کا منصوبہ تیار کیا جائےگا۔ حالانکہ مساجد اور جلسہ وغیرہ میں تقاریر بھی ہوتی ہے، لیکن کوئ بھی عملی شکل اختیار نہیں کیے جانے کی وجہ سے مسلمانوں پر ان تقاریر کا اثر کم ہوتا ہے۔
اس پینل میں مفتی افسار احمد، مفتی مشرف حسین، مولانا طاہر رضا فریدی، حافظ مجاہد حسین، مولانا نظام الدین، قاری الطاف احمد، صوفی اقرار حسین، جاوید مجیب وغیرہ علماء کو شامل کیا گیا۔
بہرحال ابتدائی طور پر پوسٹرز، ہینڈبل اور لٹریچر کا سہارا لیکر غیر اسلامی عمل یعنی مغربی ثقافت کو ختم کرنے کی کوشش کی جائےگی۔