علی گڑھ: اردو اکیڈمی کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر راحت ابرار کہتے ہیں کہ سرسید احمد خان Sir Syed Ahmed Khan کو لوگوں نے صرف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی یا ماہر تعلیم کے طور پر یاد رکھا، جب کہ سرسید احمد خاں کی دیگر خدمات پر اس طریقے سے روشنی نہیں ڈالی اور نہ ہی یاد رکھا جس طریقے سے یاد رکھنا چاہیے تھا۔
مزید پڑھیں:
ڈاکٹر راحت ابرار نے بتایا "سرسید احمد خان کے دور میں ریاست اترپردیش کے ضلع بریلی میں گائے کی قربانی کو لے کر ایک جھگڑا بھی ہوا جس پر سر سید احمد خان نے مضامین لکھے اور لوگوں کو مشوارہ بھی دیا۔ سرسید احمد خان جب تک زندہ رہے اور اس کے بعد بھی روایت کے طور پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلباء کو رہائشی ہالوں میں گائے کا گوشت کھانے کے لیے نہیں دیا"۔
سرسید احمد خاں کے زمانے کا ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر ابرار نے بتایا "سر سید کے زمانے میں ہی کچھ طلباء گائے کو خرید کر لے آئے تھے لیکن جب سرسید احمد خان کو علم ہوا کہ ان کے کالج کے طلبہ گائے کی قربانی کے لیے گائے کو خرید کر لائے ہیں تو گھر سے واپس آئے اور انہوں نے اس گائے کو آزاد کر دیا اور حدایت جاری کی کے محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج کے اندر گائے کی قربانی نہیں ہوگی"۔
بانی درس گاہ سرسید احمد خان دوسروں کے مذاہب کے جذبات کا، اکثریتی طبقے کے جذبات کا خیال رکھتے تھے، اسی وجہ سے سرسید احمد خان نے علی گڑھ میں کبھی بھی گائے کی قربانی نہیں ہونے دی، حالانکہ اس وقت گائے کی قربانی پر کسی طرح کی کوئی پابندی نہیں تھی باوجود اس کے سر سید احمد خان نے کبھی بی ایم اے او کالج کے طلبہ کو گائے کا گوشت کھانے اور قربانی کی اجازت نہیں دی۔'
آج ملک کے مختلف ریاستوں میں گائے کی قربانی پر حکومت کی جانب سے سخت پابندی عائد ہونے کے باوجود کچھ علاقوں میں مسلمان گائے کی قربانی کرتے ہیں اور عام دنوں میں بھی گائے کو ذبح کرکے اس کے گوشت کا استعمال کھانے کے لیے کرتے ہیں جس کے خلاف سرسید احمد خان تھے اور مسلمانوں سے گائے کی قربانی نہ کرنے کی بھی اپیل کرتے رہتے تھے۔