شیروانی یوں تو صدیوں پرانا لباس ہے لیکن علیگڑھ میں اے ایم یو کے زیر سایہ شیروانی کو بہت عزت و احترام ملا۔ اس ترقی یافتہ دور میں بھی علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں شیروانی نے جو مقام حاصل کیا ہے۔ وہ دوسرے کسی لباس کو نہیں ملا۔
یونیورسٹی کے سابق طالب علم اور اسسٹنٹ پراکٹر ڈاکٹر ارشد باری نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو کے دوران بتایا کہ 'شیروانی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلباء کی روح کی طرح ہے، یونیورسٹی میں جب بھی کوئی تقریب یا المنائی پوری دنیا میں کراتے ہیں تو اس میں آپ دیکھیں گے کہ بہت سارے لوگ شیروانی زیب تن کئے ہوتے ہیں۔
روایت کو برقرار رکھتے ہوئے یونیورسٹی میں جتنے بھی نئے داخلے ہوتے ہیں۔ اس میں طلباء کی فیس میں 800 روپے شیروانی کے لیے بھی ہوتے ہیں اور پراکٹر آفس سے ایک رسید ملتی ہے جس کے بعد علیگڑھ کے مختلف ٹیلر(درزی) جو شیروانی کے ماہر ہیں طلباء وہاں سے شیروانی سلوا لیتے ہیں۔
اس میں طلباء کے لیے شیروانی کا رنگ کالا ہے اور اسٹاف مختلف رنگوں کی شیروانی پہنتے ہیں۔
علی گڑھ میں معروف درزی مہندی حسن کے صاحبزادے اختر مہدی نے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ سنہ 1975 سے شیروانی کی روایت شروع ہوئی ہے یہ یونیورسٹی کا ضابطہ ہے اسی کے تحت یہ بنتی ہیں۔
یونیورسٹی کے طلباء سے داخلے کے وقت پیسہ لے لیا جاتا ہے اس کے بعد ایک عمل کے تحت یونیورسٹی کپڑا مہیا کراتی ہے اور طلباء اپنی پسند سے درزی کے پاس جا کر شیروانی سلواتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسے کافی مقبولیت حاصل ہے اور بہت ذوق و شوق سے طلباء شیروانی پہنتے ہیں جبکہ یوم سرسید کو کافی اہتمام سے پہنی جاتی ہے۔
یونیورسٹی کے سابق طالب علم اور شعبہ دینیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ریحان اختر قاسمی نے بتایا میرے پاس دس سے بارہ شیروانی موجود ہیں، ویسے تو یہ لباس صدیوں پرانا ہے لیکن اس کا نوابین اور رئیس زادہ حیدرآباد میں جو نواب رہتے تھے ان کا یہ لباس ہوتا تھا لیکن جب یہ یونیورسٹی کی طرف آیا تو اس نے تعلیم کے زیور سے اپنے آپ کو آراستہ کر لیا۔
انہوں نے کہا کہ 'اب پوری دنیا میں جو پہچان ہے وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ہے اس کا مطلب دنیا میں آپ کہیں بھی جائیں اور شیروانی پہنے ہوئے ہیں تو لوگ یہ پوچھتے ہیں کیا آپ علیگڑھ سے ہیں، اس کا مطلب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے اپنی پرانی روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔