ریاست اترپردیش کے شہر کانپور کے رہنے والے شمسُ الدین سنہ 1992 میں بھارت سے پاکستان گئے تھے اور ملک کے حالات کشیدہ ہونے کے سبب شمس الدین نے وہیں قیام کیا۔
بعدمیں انہیں جاسوسی کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا تھا، تمام تحقیق کے بعد جیل سے رہا ہونے کے بعد پاکستان حکومت نے انہیں بھارت کو سپرد کر دیا، کانپور پہنچنے پر شمس الدین کے اہل خانہ اور محلہ سمت ضلع انتظامیہ نے زبردست استقبال کیا۔
اٹھائیس برس بعد کانپور سے شمس الدین جب کانپور پہنچے تو ان کی بہنوں اور محلے کے لوگوں نے استقبال کیا تو ان کی آنکھوں میں آنسو چھلک آئے، ماں بہنوں نے بھی شمس الدین کو جب گلے لگایا تو منظر بے حد جذباتی ہوگیا۔
وہیں دوسری جانب شمس الدین امن کا پیغام دے رہے تھے اور یہ کہتے جارہے تھے کہ اگر دونوں ملکوں تحفظ کے پیش نظر اگر کوئی شکوک و شبہات میں گرفتار ہوا ہو تو اس کی تحقیق کرکے اسے جلد رہا کر دینا چاہیے نہ کہ اس پر سیاست کی جائے۔
دراصل شمس سنہ 1992 میں گھر والوں سے ناراض ہو کر اپنے دوسرے عزیز رشتہ دار جو پاکستان میں رہتے مقیم تھے ان کے پاس چلے گئے تھے، اور جب وہ پاکستان میں تھے اسی وقت بھارت اور پاکستان کے بیچ حالات کشیدہ ہوگئے، اسی دوران ان کے ویزا کا وقت بھی ختم ہوگیا، اور وہ وہیں پاکستان میں ہی پھنس گئے۔
جب بیس برس بعد سن 2012 میں وہ اپنا پاسپورٹ رینیو کرانے ایمبیسی پہنچے تو وہاں انہیں گرفتار کرلیا گیا، ان پر الزام لگا کہ وہ بھارت سے آکر پاکستان میں جاسوسی کررہے تھے، اس لیے ان کو جیل میں ڈال دیا گیا۔
تمام تحقیق کے بعد جب شمس الدین بے قصور ثابت ہوئے تو انہیں بھارت کو 24 اکتوبر سنہ 2020 کو سپرد کردیا گیا۔
کانپور پہنچنے پر ڈی آئی جی کانپور نے ان کا استقبال کرتے ہوئے شمسُ الدین کو ان کے اہل خانہ کو سپرد کردیا۔