لکھنؤ: حیات اللہ انصاری نے افسانہ نویسی و ناول نگاری تو کچھ ہی مدت تک کی لیکن ان کی صحافت کی مدت بہت طویل رہی۔ افسانہ و ناول نگاری کے ساتھ بھی ان کا صحافتی قلم چلتا رہا اور جب افسانہ لکھنا موقوف کیا تب بھی بطور صحافی وہ لکھتے رہے۔ انھوں نے اپنی صحافت کا آغاز کانگریس پارٹی کے ترجمان اردو ہفت روزہ ‘ہندوستان’ کے ایڈیٹر کے طور پر 1937ء میں کیا۔
پھر 1945 میں جب تحریک آزادی اپنے فیصلہ کن موڑ پر تھی پنڈت نہرو نے لکھنؤ سے روزنامہ قومی آواز نکالنے کا فیصلہ کیا۔ حیات اللہ انصاری اس کے پہلے ایڈیٹر مقرر کئے گئے۔ انھوں نے اپنی صلاحیت اور تجربہ کی بنیاد پر اردو صحافت کو بلند معیار عطا کیا۔ ان خیالات کا اظہار امین آباد کے زنانہ پارک میں ‘‘حیات اللہ انصاری: ایک عہد ساز شخصیت’’ موضوع پر منعقد سیمینار میں مقررین نے کیا۔ سمینار کا انعقاد آل انڈیا تعلیم گھر و بزم خواتین کے تحت کیا گیا تھا۔ صدارت پروفیسر ہما یعقوب، مانو لکھنؤ کیمپس انچارج نے جبکہ نظامت سمینار کی آرگنائزر و کنوینر بیگم شہناز سدرت نے کی۔ بیگم شہناز سدرت نے تعارفی کلمات کہے اور حیات اللہ انصاری انصاری کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔
صدر تقریب پروفیسر ہما یعقوب نے کہا کہ حیات اللہ انصاری کی اردو ادب اور صحافت کے میدان میں دی گئی خدمات بے مثال ہیں۔ انھوں نے کہاکہ حیات اللہ صاحب کی خدمات کو مزید اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ہمارے لئے قابل فخر ہے کہ ہم اس شہر میں رہتے ہیں جسے حیات اللہ انصاری جیسی عبقری شخصیت نے اپنا میدان عمل بنایا۔ انھوں نے کہا کہ ہم اپنے شعبہ اردو کے اساتذہ سے مشورہ کرکے حیات اللہ صاحب پر کچھ کام کرائیں گے۔
مزید پڑھیں: وارث نشان پبلک اسکول میں سیمینار کا انعقاد
راشد خان ندوی نے کہا کہ حیات اللہ صاحب نے اردو کو بہت کچھ دیا۔ انھوں نے 1934ء میں تعلیم گھر قائم کیا جہاں انھوں نے تعلیم بالغاں کی شروعات کی۔ غیر اردوداں طبقہ کے لئے ‘دس دن میں اردو’ کتاب لکھی۔ اردو ٹریننگ کورس شروع کیا۔ اس طرح وہ عملی طور پر بھی اردو کے فروغ کے لئے سرگرم عمل رہے۔ پروگرام کا آغاز نعت پاک سے ہوا۔ حنا صدیقی نے اپنی ٹیم کے ساتھ ترانہ پیش کیا۔ راضیہ، افشاں، انور جہاں اور شاہین نے تقریریں کیں۔ آرگنائزر بیگم شہناز سدرت نے اس موقع پر اعلان کیا کہ وہ حیات اللہ انصاری کے کارناموں کو محفوظ رکھنے کے لئے جلد ہی حیات اللہ انصاری اکادمی کی تشکیل کریں گی۔