پولیس کی موجودگی میں 30 لاکھ روپئے کا تاوان دینے کے باوجود سنجیت کو قتل کرنے اور لاش کو غائب کرنے پر ارکان خاندان نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
سنجیت یادو کے ارکان خاندان کچھ دن قبل واقعہ کی سی بی آئی کے ذریعہ تحقیقات کرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج کیا تھا اور ایس ایس پی کانپور اور مقامی رکن اسمبلی نے انہیں اس معاملہ کی سی بی آئی سے تحقیقات کرانے کا تیقن دیا تھا جس کے بعد ارکان خاندان نے احتجاج کو ختم کردیا۔
تیقن دینے کے 15 روز بعد بھی سی بی آئی تحقیقات کی منظوری نہ دینے سے ناراض سنجیت کی ماں، بہن اور دیگر افراد نے لکھنوں میں وزیراعلیٰ کے مکان تک مارچ پر نکل پڑے جبکہ ان لوگوں نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھائے ہوئے تھے جن پر احتجاجی نعرے درج تھے۔
واضح رہے کہ اس معاملہ میں اترپردیش حکومت نے ایک ایس پی، ایک ڈی ایس پی، ایک انسپکٹر، تین سب انسپیکٹرز اور چھ پولیس اہلکاروں کو معطل کردیا تھا۔
افراد خاندان کا کہنا ہے کہ سنجیت کا اگر قتل کردیا گیا ہے تو کم از کم اس کی لاش کو حوالہ کیا جانا چاہئے تاکہ اس کی آخری رسومات ادا کی جاسکے۔
واضح رہے کہ کانپور میں 22 جون کو 28 سالہ نوجوان سنجیت یادوں جو میڈیکل لیب میں ملازم تھا کو اس کے ساتھیوں نے اغوا کرلیا تھا اور 30 لاکھ روپے کا تاوان وصول کرنے کے باوجود سنجیت یادوں کو قتل کردیا تھا جبکہ اطلاعات کے مطابق اغوا کاروں نے 27 جون کو سنجیت کی لاش پانڈو ندی میں بہا دی تھی لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود ابھی تک سنجیت کی لاش نہیں ملی ہے۔ اس معاملے میں پولیس کی لاپرواہی کو دیکھتے ہوئے اترپردیش حکومت نے ایس پی ساؤتھ اپرنا گپتا اور ڈی ایس پی منوج گپتا اور تھانہ دار چوکی انچارج سمیت 11 پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیا تھا۔
اس کے علاوہ ریاستی حکومت نے سنجیت یادوں کی بہن کو 5 لاکھ روپے معاوضہ دیا تھا اور اس معاملہ میں پولیس کی لاپرواہی کی شکایت پر ایک جانچ کمیٹی تشکیل دی تھی۔